سیّدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ
سیّدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک بن کعب بن عمرو بن سعد بن عوف بن قیس: ان کا تعلق بنو ثقیف سے تھا اور ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ ایک روایت میں ابو عیسیٰ بھی آئی ہے۔ ان کی والدہ امامہ بنتِ افقم بن عمرو تھیں۔ جو بنو نصر میں معاویہ سے تھیں۔ مغیرہ غزوۂ خندق کے موقع پر ایمان لائے تھے اور صلح حدیبیہ میں موجود تھے۔ اس موقعہ پر انہوں نے عروہ بن مسعود سے مذاکرے میں حصّہ لیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابو عیسیٰ کی کنیت عطا کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ابو عبد اللہ کہنا شروع کر دیا تھا۔
جناب مغیرہ اپنی عقل رسا کی وجہ سے مشہور تھے۔ شعبی کہتے ہیں، عرب کے دانشور چار تھے۔ ۱۔ معاویہ بن ابو سفیان ۲۔ عمرو بن عاص ۳۔ مغیرہ بن شعبہ ۴۔ زیاد: اول الذّکر وسیع الظرفی اور حکم کی وجہ سے، عمرو بن عاص حل مشکلات کی بنا پر، مغیرہ بن شعبہ عقلِ رسا اور جودتِ فکر کے سبب اور زیاد چھوٹے موٹے کاموں کی عقدہ کشائی کے سلسلے میں مشہور تھے۔ اسی طرح قیس بن سعد بن عبادہ کا شمار عرب کے مشہور داناؤں میں ہوتا تھا۔ نیز کرم و فضل میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
کہتے ہیں کہ بعد از اسلام مغیرہ بن شعبہ نے وقتاً فوقتاً تین سو عورتوں سے نکاح کیا ایک روایت میں ہزار کا ذکر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بصرے کا والی مقرر کردیا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان پر زنا کی تہمت لگائی گئی۔ چنانچہ وہ معزول کر دیے گئے۔ بعد میں انہیں کوفے کا والی مقرر کیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت تک وہ اس منصب پر فائز رہے جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے، تو انہوں نے مغیرہ کو اس منصب پر رہنے دیا مگر کچھ عرصے کے بعد معزول کر دیے گئے۔
جناب مغیرہ جنگِ یمامہ اور شام کے معرکوں میں شریک رہے۔ یرموک کے معرکے میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو ہوگئی تھی۔ جنگ قادسیہ اور نہاوند میں بھی شامل تھے، اور نعمان بن مقرن کی فوج کے میسرہ کے کما زار تھے۔ اسی طرح ہمدان وغیرہ کی جنگوں میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ حضرتِ عثمان کی شہادت کے بعد جھگڑے سے علیحدہ ہوگئے تھے، لیکن مجلسِ محامکہ میں موجود رہے۔
جب امام حسن رضی اللہ عنہ نے کاروبارِ خلافت امیر معاویہ کے حوالے کردیا اور امیر نے کوفے کی ولایت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کو دے دی۔ تو جنابِ مغیرہ نے امیر سے کہا، تم نے عمرو بن عاص کو مصر اور مغرب کا علاقہ دے دیا ہے اور کوفے کی ولایت اس کے بیٹے کے حوالے کردی ہے۔ اس طرح تم نے خود کو شیر کے دوجبڑوں میں دے لیا ہے۔ چنانچہ عبد اللہ کو معزول کر کے مغیرہ کو مقرر کردیا۔ یہ اپنی وفات تک جو ۵۰ ہجری میں واقع ہوئی۔ اسی منصب پر رہے۔
مندرجہ ذیل صحابہ نے ان سے روایت کی: ابو امامہ باہلی۔ مسور بن مخرمہ اور قرۃ المزنی۔ تابعین میں ان کی اولاد میں سے عروہ، حمزہ اور غفار نے اسی طرح ان کے آزاد کردہ غلام وراد، مسروق، قیس بن ابی حازم اور ابو وائل وغیرہ نے۔
صغیرہ اسلام میں پہلے آدمی ہیں جنہوں نے بصرے میں عدالت قائم کی۔ اور اس لحاظ سے بھی پہلے آدمی ہیں۔ جنہوں نے برقا حاجب کو کچھ رقم دی تھی۔ تاکہ وہ انہیں دارِ عمر میں داخل ہونے کا موقع دے (روایت مخدوش ہے، کیونکہ حضرت عمر کو حاجب کی کیا ضرورت تھی)
ابراہیم بن محمد فقیہ وغیرہ نے باسنادہ ہم تا محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے ابولید الد مشقی سے انہوں نے ولید بن مسلم سے، انہوں نے ثور بن یزید سے اُنہوں نے رجاء بن حیوۃ سے انہوں نے مغیرہ کے کاتب وراد سے انہوں نے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں طرف مسح کیا۔
ان کی وفات کے بعد مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی نے ان کی قبر پر کھڑے ہوکر ذیل کے دو اشعار پڑھے۔
اِنَّ تَحْتُ الاَجْحَارِ حَزْ ماً وَجُرْداً |
وَخَصِیْماً اَلَدَّ ذامِعْلَاقٖ |
ترجمہ: ان پتھروں کے نیچے ایک با حزم وجود ہے اور ایک ایسا لجوج دُشمن ہے جس کی دُشمنی کی کوئی حد نہیں۔
حَیَّۃٌ فِی الْوَجارِ اربدلَا |
یَنْفَعْ مِنْہَ السُّلِیْمَ نَفْثُ الرَاقِیُ |
ترجمہ: وہ ایک سانپ ہے جو بل میں بیٹھ گیا ہے اور جس کو وہ کاٹ لے۔ اسے کسی منتر پڑھنے والے کی پھونک کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
پھر مصقلہ کہنے لگے۔ بخدا میں جس سے عداوت کروں، اس سے سخت عداوت کرتا ہوں اور جس سے محبت کروں، اس سے سخت محبت کرتا ہوں۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔