بن اخنس بن شریق الثقفی۔ ہم ان کا نسب ان کے باپ کے ترجمے میں لکھ آئے ہیں۔ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور یوم الدار کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوگئے تھے۔ اس موقعہ پر انہیں زبر دست ابتلا پیش آیا اور وہ خوب جی توڑ کر لڑے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے کو باغیوں نے آگ لگادی تو انہوں نے ذیل کے اشعار کہے:
لَمَّا تَھَدَّمَتِ الاَ بوَابُ وَاخْتَرَقت
|
|
یَمَّمْتَ مُنْھُنَّ بَاباً غَیْرَ مُحْترَقَ
|
ترجمہ: جب دروازے گِر پڑے اور جل گئے، تو مَیں ان میں سے ان جلے دروازے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
حَقّاً اَقْوُلُ وَعَبْدَ اللہِ امْرہٗ
|
|
اِنْ لَمْ تُقَاتِلُ لَدَیَ عُثْمَانَ فَانْطَلَقِ
|
ترجمہ: مَیں سچ کہتا ہوں عبد اللہ کو مَیں نے حکم دیا۔ کہ اگر تم عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے نہیں لڑسکتے تو چلے جاؤ۔
وَاللہِ اَثرُ کَہٗ مَادَامَ بِیْ دَمَقٌ
|
|
حَتٰی تَزَایَل بَیْنَ الرَّاسِ وَالعُنُقِ
|
ترجمہ: بخدا مَیں اس وقت تک لڑتا رہوں گا، جب تک مجھ میں سانس باقی ہے اور جب تک سر اور گردن ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوجاتے۔
ھُرَ الْاِمَامُ نَلَسُتُ الْیَوْمَ خا ذِلُہٗ
|
|
اِنَّ الفِرَارَ عَلَیَّ الْیَوْمَ کالسَّرَقَ
|
ترجمہ: وہ ہمارا امام ہے اور مَیں اسے آج رسوا نہیں کروں گا۔ ایسے وقت میں بھاگ جانا میرے نزدیک چوری ہے۔
خلیفہ بن خیاط سے مروی ہے کہ جس شخص نے مغیرہ کو قتل کیا تھا۔ اسے بعد میں جذام کا مرض ہوگیا۔ جس شخص نے جناب مغیرہ کو قتل کیا تھا اس نے وقوعہ سے پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جسے وہ نہیں جانتا تھا کہہ رہا تھا کہ مغیرہ بن اخنس کا قاتل جہنمی ہے۔ یوم الدار کو مغیرہ جنگ کے لیے نکلے۔ چنانچہ انہوں نے تین آدمیوں کو قتل کیا۔ اس آدمی نے جناب مغیرہ پر تلوار کا وار کیا جس سے ان کا پاؤں کٹ گیا۔ قاتل نے دوسرا وار کیا اور وہ شہید ہوگئے۔ اس پر اُس نے مقتول کا نام دریافت کیا۔ تو معلوم ہوا کہ یہی مغیرہ بن اخنس ہیں۔ وہ کہنے لگا۔ مَیں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جس کے قاتل کو جہنم کی بشارت دی گئی تھی۔ وہ اسی طرح اس مرض میں مبتلا رہا، تا آنکہ وہ ہلاک ہوگیا۔ ابو عمر نے اس کا ذکر کیا ہے۔