مولی ابی احمد بن جمش: یہ بریرہ کے خاوند تھے۔ یہ ابن مندہ اور ابو نعیم کا قول ہے۔ ابو عمر کہتے ہیں کہ وہ بنو مطیع کے مولی تھے۔ عبد الرحمٰن بن قاسم نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہ انہوں نے بریرہ کو ایک انصاری سے خریدا۔ بروایتے وہ بنو مغیرہ بن مخزوم کا مولی تھا اور ابو احمد اسدی اسد بن خزیمہ سے تھا۔ اور بنو مطع، قریش کے عدی قبیلے سے تھے۔ جب حضرت عائشہ نے بریرہ کو خریدا تو مغیث اس کے خاوند تھے جو آزاد تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ غلام تھے۔
یحییٰ محمود بن اصفہانی اور ابو یاسر بن ابی حبہ نے باسناد ہما تا مسلم بن حجاج، محمد بن علاء ہمدانی سے، انہوں نے ابو اسامہ سے، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ وہ بریرہ سے مِلنے گئیں توا نہوں نے حضرت عائشہ سے گزارش کی کہ میرے اہلِ خانہ مجھے آزاد کرنے پر تیار ہیں۔ بشرطیکہ مَیں انہیں متواتر نو سال تک، ہر سال ایک اوقیہ کے حساب سے چاندی ادا کرتی رہوں۔ آپ میری امداد فرمائیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا۔ اگر تمہارے اہلِ خانہ یک مشت ادائیگی پر رضا مند ہوگئے۔ تو مَیں تمہاری امداد کر سکوں گی اور تمہیں آزاد کردوں گی بشرطیکہ تمہاری ولایت مجھے منتقل ہوجائے۔
حضرت عائشہ نے زرِ کتابت کا بندبست کرلیا اور بریرہ کے خاندان سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن ولایت ہمارے پاس ہی رہے گی۔ جب بریرہ حضرت عائشہ سے ملنے آئیں تو جنابِ صدیقہ نے حقیقتِ حال کا ذکر کیا تو انہوں نے نا پسند کیا۔ اس کی بھنک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پڑگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو مَیں نے واقعہ عرض کر دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بریرہ کو خرید کر آزاد کردو اور ولاء کی شرط بھی مان لو، کیونکہ اصولاً ولاء اس شخص ہی کی ہوتی ہے، جو کسی کو آزاد کرتا ہے۔ حضرت عائشہ نے بریرہ کو خرید کر آزاد کردیا اور شام کو حضور نے لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا۔
’’ان لوگوں سے، جو ایسی شرائط پیش کرتے ہیں، جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ کیا کہوں، کیونکہ ایسی تمام شرائط باطل ہوتی ہیں۔ اسی طرح جو ولاء کو اپنے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہے وہ غلط ہے حالانکہ آزاد کرنے والا آدمی اور ہے اصولاً جو آدمی کسی کو آزاد کرتا ہے۔ ولایت کا استحقاق بھی اسے ہی حاصل ہوگا۔‘‘
مسماز، ابو الفرج، اور حسین نے (باسناد ہم تا محمد بن اسماعیل) محمد بن عبد الوہاب سے، انہوں نے خالد سے انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ بریرہ کا خاوند مغیث نامی ایک غلام تھا۔ یہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ وہ بریرہ کے پیچھے بھاگا پھرتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی ڈاڑھی میں اٹک جاتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا۔ مقام تعجّب ہے کہ مغیث بریرہ سے اتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ اس سے نفرت کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا۔ کاش تو بھی اس کی محبت کا جواب دیتی۔ اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، سفارش ہے۔ بریرہ نے عرض کیا، مجھے اس آدمی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔