بن خالد بن ولید: یہ اوّل الذّکر کے عمزاد ہیں، قریشی و مخزومی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ اور ان کے بھائی عبد الرحمٰن چھوٹے سے لڑکے تھے۔ دونوں بھائیوں کے مزاج میں اختلاف تھا۔ عبد الرحمان صفین میں امیر معاویہ کے لشکر میں شامل تھے۔ جب کہ مہاجر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دار تھے۔ اسی طرح جنگِ جمل میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ اس جنگ میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ بعد میں جنگِ صفین میں مارے گئے تھے۔
جناب مہاجر کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام خالد تھا۔ جب ابنِ اثَال الطبیب نے عبد الرحمٰن بن خالد کو زہر دے کر مار دیا۔ تو خالد نے اپنے چچا کا خون بہا نہ طلب کیا، لیکن عمرو بن زبیر نے اسے عار دلائی چنانچہ خالد اور ان کا غلام دمشق چلے گئے ایک رات انہوں نے ابنِ اثال کا تعاقب کیا۔ وہ اس رات امیر معاویہ کے پاس بیٹھا انہیں کہا نیاں سُنا رہا تھا۔ جب یہ نشست ختم ہوئی اور وہ خالد اور ان کے غلام نافع کے قریب پہنچا تو اس وقت اس کے ساتھ کئی اور افسانہ گو بھی تھے۔ اس موقعہ پر خالد اور نافع نے حملہ کردیا۔ باقی تو بھاگ گئے لیکن خالد نے ابن اثال طبیب کو قتل کردیا۔ پھر وہ واپس مدینے آگئے اور وہاں عروہ بن زبیر کو مندرجہ ذیل اشعار سے مخاطب کیا۔
قضیٰ لاِبُنِ سَیُفِ اللہ بالحق سَیْفَہ
|
|
وَعَرَیَ مِن حَمْلِ الذَحُولِ رَوَاحِلہُ
|
ترجمہ: ابن سیف اللہ کے لیے اس کی تلوار نے حق ادا کردیا ہے اور اس کی اونٹنیوں نے انتقام کا بوجھ اُٹھانے سے انکار کردیا ہے۔
فَاِنْ کَانَ حَقاً فَھوَ حَقَّ اصَابَہٗ
|
|
وَاِن کَانَ ظنًّا فَھُو بِالظّنِّ فا عِلہُ
|
ترجمہ: اگر یہ حق تھا، تو اُس نے اپنا حق پالیا ہے۔ اور اگر یہ ظن ہے، تو اس نے اس ظن کی بنا پر ہی یہ کام کر دیا۔
سَلْ ابْنَ اَثالٍ ھَلْ ثَارثُ بن خَالِد
|
|
وَھَذَا ابْنُ جَرْ مَوْزٍ فَھَلْ اَنْتَ قَاتِلَہْ
|
ابن اثال سے پوچھو تو سہی کہ مَیں ابن خالد کا انتقام لے رہا ہوں یا نہ اور یہ ابنِ جرموز ہے جس نے زبیر کو قتل کیا تھا۔ کیا تم اسے قتل کرو گے۔
زبیر کی اولاد میں سے کسی کو ان کا انتقام لینے کی ہمت نہ پڑی۔ ابو عمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔