اور ا یک روایت میں ابن سلیم بن زید بن عبید بن ثعلبہ بن یربوح بن ثعلبہ بن الدول بن حنیفہ میں لحیم بن صعب بن علی بن بکر بن وائل حنفی یمامی مذکور ہے ۔ جناب
مجاعہ اور ان کے والد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں عودہ، عوانہ اور الجیل کے علاقے بطور جاگیر
عطا کیے اور فرمان لکھ کر دیا۔ مجاعہ بنو حنیفہ کے رؤسا میں سے تھے۔ تحریک ارتداد میں۔ جناب خالد بن ولید سے کچھ واقعات مذکور ہیں جن کا ذکر ہم نے اپنی کتاب
الکامل فی التاریخ میں کیا ہے۔ جنابِ خالد کے ساتھ ایک واقعہ یوں ہے کہ مجاعہ، خالد بن ولید کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے مسیلمہ کے آدمیوں کو دیکھا کہ
انھوں نے تلواریں نیاموں سے باہر نکالی ہوئی ہیں۔ مجاعہ سے مخاطب ہوکر کہا ’’مجاعہ! یہ بزدل تیری قوم کے ہیں۔‘‘ نہیں یہ یمانیہ قبیلے کے لوگ ہیں۔ میرے لوگ تو
ایسے ہیں کہ تو ان کی پشت کو نرم نہیں کرسکے گا۔ جب تک تو اسے چیر نہ دے۔‘‘ کیا تو اپنے قبیلے سے اس شدت سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ہاں یہ درست ہے، کیونکہ وہ اولاد آدم
میں سے میرے دست و بازو ہیں۔
ہمیں عبدالوہاب بن علی الا میں نے بذریعہ اس اسناد کے جو داؤد سلیمان بن اشعث تک جاتا ہے، بتایا کہ ہمیں محمد بن عیسیٰ نے، اسے عنبہ بن عبدالواحد القرشی نے، اسے
رحیل بن ایاس بن نوح بن مجاعہ نے اسے ہلال بن سراج بن مجاعہ نے اپنے باپ سے اس نے اپنے دادا مجاعہ سے روایت کی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوئے اور درخواست کی! ’’یارسول اللہ میرے بھائی کو بنو ذہل کی شاخ بنو سدوس نے قتل کردیا ہے، اس لیے مجھے اس کا خون بہا دیا جائے۔حضور اکرم نے فرمایا میں
کافروں کا خون بہا نہیں دیا کرتا، لیکن بہرحال میں تیری امداد کروں گا۔ حضور نے انھیں ایک فرمان لکھ دیا کہ بنو ذہل کے مالِ غنیمت سے جو خمس نکالا جائے، اس میں
سے سو اونٹ مجاعہ کو دے دیے جائیں۔
مجاعہ سے ان کے بیٹے سراج کے سوا اور کسی نے روایت نہیں کی۔ ان کی نسبت سلمی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دادا کا نام سلیم تھا۔ اس کی تخریج تینوں نے کی ہے۔