بن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرۃ قرشی الزہری: ان کی والدہ رفیقہ بنت ابی صیفی بن ہاشم بن مناف تھی: ان کی کنیت ابو صفوان یا ابو المسور یا ابو
الاسود؟؟۔ اول الذّکر کنیت کو زیادہ شہرت حاصل تھی۔ وہ مسور بن مخرمہ کے والد تھے اور سعد بن ابی وقاص کے عمزاد۔ یہ ان لوگوں سے تھے، جو بعد از فتح مکّہ اسلام
لائے تھےا ور مولفتہ القلوب میں سے تھے، لیکن بعد میں اسلام کی بہتر خدمت کی۔ عمر رسیدہ تھے اور ایام الناس اور بالخصوص قریش کے اہم واقعات انہیں ازبر تھے اور
اسی طرح علم الانساب کے ماہر تھے۔ غزوۂ حنین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پچاس اونٹ دیے تھے۔ یہ صاحب ان خوش
قسمت لوگوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے دورِ خلافت میں حدود حرم کو علیحدہ کرنے کے نشان لگائے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ ازہر بن عوف
سعید بن یربوع اور حویطب بن عبد العزی کو بھیجا تھا۔ انہوں نے ۵۴ ہجری میں جب اِن کی عمر ایک سو پندرہ برس تھی۔ مدینے میں وفات پائی۔ وہ آخری عمر میں اندھے
ہوگئے تھے۔ چونکہ درشت خو تھے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی درشتی سے بچنے کی کوشش فرماتے۔
ہمیں عبد اللہ بن احمد خطیب نے بتایا، انہیں جعفر السراج القاری نے، انہیں ابو علی محمد بن حسین الجارزی نے، انہیں معافی بن زکریا الحریری نے، انہیں حسین بن
محمد بن عضیر الانصاری نے انہیں ابو الخطاب زیاد بن یحییٰ الحمانی نے، انہیں حاتم بن وردان نے، انہیں ایوب نے، اُنہیں عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے اور انہیں مسور
نے بتایا۔ کہ مَیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چند قبائیں پیش کیں۔ میرے والد نے مجھ سے کہا۔ تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چل،
ممکن ہے، وہ ہمیں مالِ غنیمت سے کچھ مرحمت فرما دیں۔ میرا والد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے دروازے پر آیا، تو آپ نے آواز سُن لی۔ باہر تشریف لائے، تو ان
کے ہاتھ میں ایک قبا تھی۔ میرے والد کو دکھا رہے تھے اور اس کی خوبیاں بیان فرما رہے تھے کہ مَیں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔
نضر بن شمیل نے بتایا۔ ہمیں ابو عامر الخزار نے ابو یزید المدنی سے، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے سنا، انہوں نے کہا، کہ ایک دفعہ مخرمہ بن نوفل حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم سے مِلنے آیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی آواز سُنی تو فرمایا، کیسا برا قرابت دار ہے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بٹھایا اور شفقت فرمائی۔ مَیں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخرمہ کے بارے جن خیالات کا اظہار کیا، مگر
بعد میں آپ بڑی ملائمت سے پیش آئے۔ فرمایا اے عائشہ بدترین آدمی وہ ہے کہ لوگ جس کی بدزبانی سے ڈر کر اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔