بن عمر بن عمیر بن عوف بن عقبہ بن غیرہ بن عوف بن ثقیف الثقفی ابو اسحاق: ان کے والد جلیل القدر صحابہ سے تھے اور جناب مختار کی پیدائش ہجرت کے سال میں ہوئی۔
انہیں حضور اکرم کی نہ تو صحبت میّسر آئی اور نہ اُنہوں نے کوئی حدیث ہی آپ سے سُنی اور ان کی روایات غیر حسن ہیں۔ ان سے شعبی وغیرہ نے روایت کی، لیکن ان کے
درمیان تعلقات کی نوعیّت کچھ ایسی تھی کہ آخر میں دونوں میں کسی ایک کی بات نہیں سُنی جاتی تھی۔
مختار حضرت حسین کا بدلہ لینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ چنانچہ شیعہ کی ایک بڑی جماعت کوفے میں اِن کے گرد جمع ہوگئی اور کوفے پر قبضہ کرلیا اور قاتلین حسین رضی
اللہ عنہ کو قتل کرنا شروع کردیا۔ شمر بن ذی الجوش اور خولی بن زید الاصیحی کو قتل کیا۔ آخر الذکر وہ شخص ہے جس نے حضرت امام کا سر میدانِ جنگ سے اٹھا کر کوفے
پہنچایا تھا۔ پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص کو جو یزیدی لشکر کا کماندار تھا۔ نیز اس کے بیٹے حفص کو اور پھر عبید اللہ بن زیاد کو، جو شام میں تھا اور مختار سے
لڑنے کے لیے کوفہ پر حملہ آور ہُوا تھا۔ قتل کیا۔ مختار نے اشترالنخعی کو ایک لشکر دے کر ابنِ زیاد کے خلاف بھیجا تھا جس میں ابن زیاد مارا گیا تھا۔ یہ جنگ
موصول کے نواح میں ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے مسلمان اس کا بہت احترام کرتے تھے اور وہ اس آزمائش میں بڑا کامیاب رہا تھا۔ ہم نے اس کا ذکر بالتفصیل الکامل فی التاریخ
میں بیان کیا ہے۔ وہ عبد اللہ بن عمر، ابن عباس اور ابن حنفیہ وغیرہ کی مالی امداد کیا کرتا تھا۔ اور یہ حضرات قبول کر لیتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر مختار کے
بہنوئی تھے۔ ان کی بہن کا نام صفیہ بنت عبید تھا۔ آخر میں مصعب بن زبیر نے بصرہ سے اہلِ بصرہ کے ایک لشکر اور نیز کوفیوں کے ایک ہجوم کے ساتھ حملہ کیا اور مختار
۶۷ ہجری میں مارا کیا۔ کوفے میں اس کی امارت صرف ڈیڑھ سال تک چل سکی۔ اس نے سڑسٹھ کی عمر پائی۔ ابو عمر نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔