بن عمرو بن خنیس بن حارثہ بن لوذان بن عبدود بن زید بن ثعلبہ بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج انصاری خزرجی، ساعدی: ابو عمر، ابن اسحاق، ابن مندہ ابو نعیم اور ابن کلبی نے ان کا یہی نسب بیان کیا ہے، لیکن انہوں نے خنیس بن لوذان کے بعد حارثہ (جسے معنق لیموت کہتے تھے) کا نام خدف کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ صاحب بیعتِ عقبہ اور غزواتِ بدر اور احد میں شریک تھے۔ عبد اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابنِ اسحاق سے بہ سلسلہ شرکائے بیعتِ عقبہ از بنو ساعدہ و منذر بن عمرو بن خنیس بن حارثہ بن لوذان بن عبدود بن زید نقیب روایت کی۔ کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر اور احد کے غزوات میں شریک تھے اور بئر معونہ کے حادثے میں شہید ہوئے تھے۔ بنو ساعدہ کی طرف سے منذر اور سعد بن عبادہ نقیب تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں فنِ کتابت سے آشنا تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور طلیب بن عمیر میں بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ یہ رشتہ ابو ذر غفاری کے ساتھ قائم ہوا تھا مگر واقدی اس سے انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلۂ مواخات غزوۂ بدر سے پہلے قائم فرمایا تھا اور ابوذر غفاری ان ایام میں مدینے سے غائب تھے۔ چنانچہ غزوہ بدر، احد اور خندق میں انہیں شرکت کا موقعہ نہیں ملا۔ اور وہ دونوں غزوات کے بعد ہجرت کر کے مدینے آئے اور لشکر اسلام کے میسرہ پر متعین تھے ایک روایت میں ہے کہ غزوۂ احد کے چار مہینے بعد آئے، یعنی ہجرت کے چوتھے سال بئر معونہ کے موقعہ پر۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے، انہوں نے اپنے والد اسحاق بن یسار سے انہوں نے معیرہ بن عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام اور عبد اللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم وغیرہ سے روایت کی۔ کہ ابو براء عامر بن مالک بن جعفر، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبولِ اسلام کی دعوت دی، لیکن اس نے نہ تو یہ دعوت قبول کی اور نہ انکار ہی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ مبلغ اہلِ نجد میں تبلیغِ اسلام کے لیے بھیج دیں تو ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ لوگ قبولِ اسلام پر آمادہ ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کہنے پر چالیس صحابہ جن میں درج ذیل لوگ شامل تھے۔ اس کے ہمراہ کر دیے جو بئرمعونہ جا پہنچے۔ جو بنو عامر اور حرۂ بنو سلیم کا علاقہ تھا۔ منذر بن عمرو، حارث بن صمہ، حرام بن ملحان عروہ بن اسماء بن صلت، رافع بن بدیل بن ورقاء الخزاعی اور عامہ بن فہیرہ وغیرہ۔
جب یہ حضرات بئر معونہ پر پہنچے، تو عامر بن طفیل نے بنو سلیم کے قبائل کو بلایا، وہ اکٹھے ہوئے اور تلواریں لیے آگئے اور مبلغین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ یہ حال دیکھ کر انہوں نے بھی تلواریں سونت لیں اور میدان میں اُتر پڑے۔ چونکہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اس لیے مبلغین میں سے سوائے کعب بن زید اور عمرو بن اُمیّہ ضمری کے سب شہید ہوگئے۔ منذر بن عمرو لاولد تھے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔