کلبی نے مرداس بن نہیک لکھا ہے اور اسی طرح ابو عمر نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ فزاری تھے۔ جن کے بارے میں قرآن کی درج ذیل آیت اُتری تھی۔
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۔
ابو سعید خدری نے روایت کی، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستۂ فوج بنو ضمرہ روانہ کیا۔ جن میں اسامہ بن زید بھی تھے۔ اسے اسامہ نے قتل کردیا۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ بنو اسلم کے ایک شیخ نے اپنے قبیلے کے کئی آدمیوں کی زبانی مجھے بتایا کہ حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے غالب بن عبد اللہ الکلبی کو بنومرہ کے علاقے میں کلب لیث کی طرف بھیجا اور اِن میں اِن کے حلیف مرداس بن نہیک جو بنو حرقہ سے تھے، بھی شریک تھے۔
انہیں اسامہ بن زید نے قتل کردیا۔
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ مجھ سے محمد بن اسامہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا اسامہ بن زید سے روایت کی کہ مُجھے اور ایک انصاری کو مرداس سے آمنا سامنا
ہوگیا۔ جب ہم نے اس پر ہتھیار اُٹھائے تو اس نے کلمہ شہادت پڑھ دیا۔ مگر ہم وار پر وار کرتے رہے، تاآنکہ وہ مرگیا۔ واپسی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
واقعہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اے اسامہ تجھے اس شخص سے کیا سروکار تھا جس نے کلمۂ شہادت پڑھا۔ عرض کیا! یا رسول اللہ، اس نے قتل سے بچنے کے
لیے ایسا کیا تھا۔ حضورِ اکرم نے اپنے پہلے جملے کو اتنی بار دہرایا کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی۔ کہ کاش مَیں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوتا، بلکہ آج ہی
اسلام لایا ہوتا۔ اور مَیں نے اس قتل کا ارتکاب نہ کیا ہوتا۔
ایک روایت میں ہے کہ مرداس کے قاتل کا نام محلم بن جثامہ تھا۔ بعض لوگوں نے ان دو کے علاوہ کسی اور کا نام لیا ہے، لیکن صحیح یہ ہے، کہ جس شخص نے جنگ میں کلمہ
شہادت پڑھا تھا۔ اس کے قاتل اسلمہ تھے۔ کیونکہ مسلمانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا اور جس کو محلم نے قتل کیا تھا، وہ اور آدمی تھا۔ واللہ اعلم تینوں نے اس کا
تذکرہ کیا ہے۔