ابو مرثد کا نام کناز الغنوی تھا۔ بابِ کاف میں ان کا نسب بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق غنی بن اعصر بن سعد بن قیس بن غیلان سے ہے۔ باپ بیٹا دونوں معرکہ بدر میں شریک
تھے۔
ہمیں جعفر نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ اسمائے شرکائے غزوۂ بدر بتایا کہ ابو مرثد کناز بن حصین اور ان کے بیٹے مرثد بن ابی مرثد
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب کے حلیف تھے۔ اور مرثد غزوۂ رجیع میں ۳ ہجری میں عاصم بن ثابت کے ساتھ موجود تھے۔ جب انہوں نے ہجرت کی۔ تو رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور ادس بن صامت میں مواخات قائم فرمادی۔ چونکہ وہ بڑے مظبوط اور طاقتور تھے، اس لیے وہ مسلمان قیدیوں کو مکے سے اٹھا کر مدینے لے جاتے
تھے مکّے میں عناق نام کی ایک فاحشہ تھی۔ جس سے زمانۂ جاہلیت میں ان کے تعلقات رہے تھے۔ انہوں نے ایک آدمی سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے مکے سے اٹھا کر مدینے
لے جائیں گے۔
وہ ایک چاندنی رات کو مکّے آئے اور ایک دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہوگئے۔ عناق وہاں آگئی اور اُس نے انہیں پہچان اور خوش آمدید کہا اور اس کے یہاں رات بسر کرنے کی
خواہش کی۔ انہوں نے کہا، عناق! اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ اس پر اُس نے شور مچادیا۔ اے اہلِ مکہ! یہ شخص تمہارے قیدی اٹھانے آیا ہے۔ آٹھ آدمی ان کے
تعاقب میں اُٹھ دوڑے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں چلتے چلتے ایک غار میں چھپ گئے وہ بھی وہاں پہنچ گئے، لیکن خدا نے انہیں بچالیا اور وہ انہیں نہ ڈھونڈھ سکے اور نا چار
لوٹ گئے۔
بعد میں وہ اپنے دوست کے پاس جسے اُٹھانے آئے تھے پہنچ گئے۔ وہ کافی وزنی تھے۔ اسے اذخر تک اٹھا لائے اور وہاں اس کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں۔ پھر وہ مدینے میں حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا مَیں عناق سے نکاح کرلوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش
رہے تا آنکہ یہ آیت نازل ہوئی: اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مَشرِکَۃ الخ۔
ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد اس دستۂ فوج کے کماندار تھے۔ جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجیع کی طرف روانہ کیا تھا اور یہ واقعہ ۳ ہجری کے
ماہِ صفر میں پیش آیا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ اس دستۂ فوج کی کمان عاصم بن ثابت کے پاس تھی اور اس واقعہ کو ہم حبیب بن عدی اور عاصم کے ترجموں میں بیان کر چُکے
ہیں۔
جناب مرثد نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہاری کامیابی قبولیتِ نماز میں ہے، پس تم اپنے میں سے بہترین آدمی
کو امام بناؤ۔ کیونکہ وہ تمہارا سالارِ وفد ہے۔
قاسم ابو عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھ سے جناب مرثد نے یہ حدیث بیان کی۔ ابو عمر نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا ہے، لیکن یہ وہم اور غلط ہے۔ کیونکہ جو شخص حضور
اکرم کی زندگی کے دوران میں قتل کردیا ہو، اسے القاسم کیسے مل سکتا ہے اور نہ حثنی، کہنا درست ہے کہ اسناد منقطع ہے۔ واللہ اعلم۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔