بن مخرمہ بن نوفل بن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ قرشی زہری: ان کی کنیت ابو عبد الرحمٰن تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام
عاتکہ بن عوف تھا، جو عبد الرحمٰن بن عوف کی بہن تھیں۔ ان کا نام شفا تھا۔
جنابِ مسور ہجرت کے دو سال بعد مکے میں پیدا ہوئے، اچھے فقیہہ اور باعمل عالم تھے۔ وہ اپنے ماموں عبد الرحمٰن کے ساتھ ہمیشہ امر شوری میں شریک رہے۔ ان کا رحجانِ
طبع حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل تک مدینے میں قیام پذیر رہے۔ پھر وہاں سے مکّے چلے گئے۔ جہاں امیر معاویہ کی وفات تک
ٹھہرے رہے۔ چونکہ انہیں یزید کی بیعت نا پسند تھی۔ اس لیے جناب ابنِ زبیر کے ساتھ مکے ہی میں رُکے رہے۔ جب حصین بن نمیر شامی لشکر لے کر مکے پر ابنِ زبیر سے جنگ
کے لیے حملہ آور ہوا۔ جناب مسور کعبے میں نماز ادا کر رہے تھے۔ کہ انہیں منجنیق کا پتھر لگا وہ گِر پڑے اور اسی سے ان کی موت ۶۴ھ کے ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو
ہوئی ۔ ۔ ۔ ابن زبیر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس وقت ان کی عمر ۶۲ برس تھی۔ ان سے علی بن حسین عروہ بن زبیر اور عبید اللہ بن عتبہ نے روایت کی۔
ابو الفضل عبد اللہ بن احمد نے سید ابو القاسم عبد اللہ بن حسین بن محمد سہروردی اسدی سے انہوں نے ابو محمد کا مکان بن عبد الرزاق سے، انہوں نے ابو صالح احمد بن
عبد الملک بن علی الموذن سے، انہوں نے ابو بکر محمد بن عبد اللہ اصفہانی سے انہوں سلیمان بن احمد بن ایوب سے، انہوں نے عبد اللہ بن احمد حنبلی سے ابو صالح نے
کہا کہ انہوں نے ابو علی حسن بن علی الواعظ سے، انہوں نے ابو بکر بن احمد بن جعفر بن حمدان سے، انہوں نے عبد اللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی،
کہ انہوں نے یعقوب بن ابراہیم بن سعد سے۔ انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ولید بن کثیر سے اُنہوں نے محمد بن عمرو سے انہوں نے حلحلہ الدولی سے روایت کی کہ ابنِ
ابی شہاب نے انہیں بتایا کہ علی بن حسین نے ان سے روایت کی، کہ مسور بن مخرمہ سے اِن کی ملاقات ہوگئی، تو انہوں نے امام علی بن حسین سے کہا کہ آیا مَیں آپ کی
کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ امام نے جواب دیا نہیں۔ اس پر مسور نے کہا۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کو حضرت فاطمہ کی سوکن بنانا چاہا۔ مَیں نے رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر سے لوگوں کو خطاب کرتے سُنا اور مَیں اس وقت بالغ تھا۔ فرمایا، فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ دربارۂ دین کسی
ابتلا میں نہ پھنس جائے، پھر آپ نے اپنے سُسرال کا جو نبو عبدالشمس سے تھے ذکر فرمایا اور اس باب میں ان کی خدمت کو سراہا اور تعریف کی۔ نیز فرمایا کہ انہوں نے
میری تصدیق کی۔ مجھ سے جو وعدے مواعید کیے۔ انہیں ایفا کیا اور حق ادا کردیا۔ مَیں نہ تو حلال کو حرام اور نہ حرام کو حلال بنانا چاہتا ہوں، لیکن بخدا محمد رسول
اللہ کی بیٹی خدا کے دشمن کی بیٹی کے ساتھ ایک چھت کے نیچے کبھی جمع نہیں ہوگی۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔