سیّدنا مسلم رضی اللہ عنہ
سیّدنا مسلم رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
سیّدنا مسلم رضی اللہ عنہ
بن حارث الخزاعی المصطلقی: یزید بن عمرو بن مسلم الخزاعی نے اپنے والد سے اُنہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ مَیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موید بن عامر کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے۔
لَا تَا مَنَنُ وَاِن اِمْسَیْت فِی حَرْمٍ
|
اِنَّ الَمنَا یَا بَجِنْبنی کُلّ اِنْسَان
|
ترجمہ: خواہ تم حرم ہی میں رات کیوں نہ بسر کرو خود کو محفوظ نہ سمجھو۔ کیونکہ موت ہر انسان کے پہلو میں موجود ہے۔
وَاسُلُکُ طَرِیْقًا تَمْشِیْ غَیْر مُحْتَشَعُ
|
حَتّٰی تَلَا فِیَ مَا یَمْنی لَکَ المَا نِیْ
|
ترجمہ: جس راستے پر تو چل رہا ہے، بلا تحاشا قدم بڑھائے جا تاکہ تو اس خواہش کو پالے، جو قدرت نے تیرے لیے مقدّر کی ہے۔
وَکُلُّ ذِیْ صَاحبٍ یَوْمًا مُفَارِقہٗ
|
وَکُلُّ زادٍ وَاَنْ اَبْقَیْتَہٗ فَانٖ
|
ترجمہ: ہر آدمی کو اپنے دوست سے ایک دن جُدا ہونا ہے۔ اور ہر متاع جس کو تو سنبھال کر رکھے گا۔ ایک دن فنا ہوجائے گا۔
وَالْخَیْرُ وَالْشَرُّ مَقْرُو نَانِ فِیْ قَرْنِ
|
بِکُلِّ ذَلِکَ یَا تیْکَ الْجَدَیْد اَنٖ
|
ترجمہ: خیر اور شر ہر دو باہم ملے ہوئے ہیں۔ اور ان کے بعد تجھے نئے نئے خیر و شر سے واسطہ پڑتا رہے گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ شخص اسلام کو پاتا، تو مسلمان ہوجاتا۔ اس پر میرے باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مَیں نے کہا۔ آپ ایک کافر کے لیے رو رہے ہیں۔ میرے والد نے کہا، بیٹا! بخدا میں نے مشرکوں میں سوید بن عامر جیسا آدمی نہیں دیکھا۔
زبیر بن بکار کا قول ہے! کہ یہ اشعار ابو قلابہ کے ہیں اور یہ وہی شخص ہے جس نے بنو ہذیل میں اول ازہمہ شعر کہے اور ابو قلابہ کا نام حارث بن صعصعہ بن کعب بن طابخہ بن لحیان بن ہذیل تھا۔ ابو عمر کہتے ہیں کہ یزید بن عمرو کی روایت، زبیر کے قول سے زیادہ قابلِ وثوق ہے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔