سیّدنا نابغۃ رضی اللہ عنہ
سیّدنا نابغۃ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
الجعدی: ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے کسی نے قیس بن عبد اللہ کسی نے عبد اللہ بن قیس اور کسی نے حبان بن قیس بن عمر و بن عدس بن ربیعہ بن جعد بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعۃ عامری، جعدی لکھا ہے۔ ابو عمر نے ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے الکلبی نے قیس بن عبد اللہ بن عدس بن ربیعہ لکھا ہے نیزان کے سلسلۂ نسب میں بھی کلبی نے اختلاف کیا ہے جو کچھ ہم نے لکھا ہے، ان کے بارے میں مشہور روایات یہی ہیں۔
انہیں نالغہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زمانۂ جاہلیت میں شعر کہا کرتے تھے، بعدۂ انہوں نے شعر کہنا بند کردیا۔ اور ۳۰ برس خاموش رہے پھر طبیعت ادھر متوجہ ہوئی اور شعر کہنے لگے اس پر نابغہ(غیر معمولی ذہین) کہلائے انہوں نے جاہلیت اور اسلام میں طویل عرصہ بسر کیا وہ نابغہ، ذبیانی سے عمر میں بڑے تھے نابغہ ذبیانی نابغۂ جعدی سے پہلے فوت ہوگئے اور آخر الذکر ان کے بعد طویل عرصہ تک زندہ رہے بروایتے انہوں نے ۱۱۸ برس عمر پائی ابن قتیبہ نے ان کی عمر ۲۴۰ سال لکھی ہے اور یہ کچھ مستبعد نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذیل کا شعر پڑھا:
تَلَا ثَۃُ اَہْلیْنَ اَفنیتُہمْ |
وَکان الْا لٰہُ ھُو اَلْمستَاسَا |
ترجمہ: تم نے تین بیوں کو ختم کر دیا۔ حالانکہ خدا سے آہ و فغاں کی جاتی رہی۔
حضرت عمر نے دریافت کیا تم نے ہر بیوی کے ساتھ کتنے سال گزارے انہوں نے جواب دیا، ساٹھ برس اس طرح یہ مدت ۱۸۰ برس بنتی ہے اس کے بعد وہ عبد اللہ بن زبیر کے عہد تک زندہ رہے تا آنکہ انہوں نے اوس بن مغراء اور لیلی الاخیلیہ کی ہجو کہی۔
وہ زمانہ جاہلیت میں دین ابراہم کے پیر و کاروں(حنیف) میں شمار ہوتے تھے۔ وہ روزہ رکھتے اور اپنی کوتاہیوں کی معانی طلب کرتے تھے ذیل کا شعران کے ایک قصیدے کا مطلع ہے۔
اَلْحُمَدُ لِللہِ لاَا شَرِیْکَ لَہُ |
مَنْ لَمْ یقٰلُہا فَنَفْسَہُ ظَلَمَا |
ترجمہ: تمام اوصاف کا سزاوار وہ خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور جو شخص اس کا قائل نہیں اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔
اس شعر میں توحیدِ باری، حشر و نشر کا اقرار اور جزا و سزا کا عقیدہ مذکورہ ہے ایک روایت کے رو سے یہ شعر امیر بن الصلت سے منسوب ہے لیکن یونس بن حبیب حماد الراویۃ محمد بن سلام اور علی بن سلیمان الاخفش نے اسے بابغہ کا شعر قرار دیا ہے نابغہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسلام لائے اور ایک قصیدہ پیش کیا، جس کا ایک شعر درج ذیل ہے۔
اَتَیٰتُ رَسُوْلَ اللہِ اِذْ جَاَء باْلْھدیٰ |
وَنَتْلُوْ کِتَا باً کَالْمَجُرّہِ نَیّراً |
ترجمہ: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت لے کر تشریف لائے۔ تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہم ایسی کتاب پڑھتے ہیں جو کہکشاں کی طرح روشن ہے۔
قتبان بن محمد بن سود ان کو ابو نصر احمد بن محمد بن عبد القاہرا لطوسی نے انہیں ابو الحسین بن نقور نے انہیں ابو الحسین محمد بن عبد اللہ بن حسین الدقاق نے ، انہیں عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز بغوی نے انہیں داؤد (ابن رشید) نے، انہیں لعیلی بن اشدق نے بتایا کہ انہوں نے نابغہ سے سنا، کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذیل کا شعر پڑھا:
بَلَغْنَا السَّماَءَ مَجدْنا وجَدْ وُدْنَا |
وَاِنَّا لَغَرْجُوْ فَوْقَ ذَلِکُ مَظْہَرَا |
ترجمہ: ہماری عزت اور حرمت آسمان تک پہنچ گئی۔ اب ہم اس سے بڑھ کر ایک اور مقام کے آرزو مند ہیں۔
اس پر حضور اکرم نے دریافت کیا اے ابو لیلی! وہ کون سا مقام ہے، انہوں نے جواب دیا، یا رسول اللہ! جنت آپ نے فرمایا درست انشاء اللہ! پھر جناب نابغہ نے ذیل کے دو شعر پڑھے۔
وَلَا خَیْرٍ فِیْ حِلْم اِزَا لَمْ یَکْنُ لَّہِ |
یَوَادِ رَتَحْمْی صَفْوَہ اَنْ یَکَّوراَ |
|
ترجمہ: (۱) اُس حلم میں کوئی بھلائی نہیں جس کے ساتھ ایسے محافظ نہ ہوں، جو اس کے اجلا پن کو گدلا ہونے سے بچالیں۔
(۲) اسی طرح اس جہل میں بھی کوئی بھلائی نہیں جس کے ساتھ وہ علم نہ ہو کہ جب اسے کوئی کٹھن منزل پیش آئے تو وہ اسے صحیح سلامت باہر نکال لائے۔
حضور اکرم نے فرمایا تونے پتے کی بات کہی ہے اللہ تیرے چہرے کو رسوا نہ کرے۔
یحی بن محمود بن سعدا صفہانی نے زاہر بن طاہر نیشا پوری سے انہوں نے ابو سعید خبر روزی سے انہوں نے ابو بکر محمد بن محمد بن عثمان المقری سے انہوں نے عبد اللہ بن سلیمان بن اشعت سے انہوں نے ایوب بن محمد الوازن سے انہوں نے لیعلی بن اشدق العقیلی سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے قیس بن سعد بن عدی بن عبد اللہ بن جعدہ یعنی نابغہ کی زبانی سنا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں انہوں نے اشعار پڑھے ان کا وہ قصیدہ بڑا طویل اور عمدہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفا کی محفلوں میں بھی ان کی آمد و رفت رہی اور وہ نہایت اچھے شاعر تھے لیکن وہ ہجو اچھی نہیں کہہ سکتے تھے اور جس شاعر سے بھی ان کا معارضہ ہوتا، ہار جاتے حالانکہ بحیثیت شاعر کے وہ لوگ ان سے کمتر درجے کے ہوتے چنانچہ انہوں نے لیلی اخیلیہ کی ہجو کی جس کا ایک مصرع یہ تھا:
اَلَاحَیّیَا لَیْلیٰ وَقُوْ لَا لَہَا ہَلّا
(ہاں میرے دوستو! تم دونوں لیلی کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ تیار ہوجاؤ) لیلی نے اس کے جواب میں کہا:
وَعَیَّرُ سَّنِیْ دَاء یاْ مِّکَ مِثلْہ |
وَاَسُّ حِصَانِ لَایْقَالُ لَہَا ہَلَّا |
ترجمہ: تو مجھے اس مرض سے شرمندہ کرنا چاہتا ہے، حالانکہ تیری ماں بھی اسی مرض میں مبتلا ہے، تو مجھے بتا تو سہی کون سی شادی شدہ عورت ایسی ہے جسے یہ لفظ نہیں سننا پڑتا۔
جنابِ نابغہ ایک دفعہ مکّے میں عبد اللہ بن زبیر سے بھی ملے اور ان کا وہ واقعہ مشہور ہے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بھی کی۔
یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے اپنے والد سے نیز اپنے چچا عبد اللہ زبیر اور اعشی سے یہ روایت بیان کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کبھی قریش کو حکومت ملی رعایا سے عدل کیا محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا سچ کو رواج دیا اور وعدوں کو پورا کیا تو انہیں جنت میں وہ مقام عطا ہوگا جو مقامِ انبیا سے صرف ایک درجہ کمتر ہوگا تینوں نے یہ حدیث بیان کی ہے۔