الخیر بقول ابو عمران کا سلسلہ نسب ہوں ہے نبیشہ بن عمرو بن عوف بن عبد اللہ بن عتاب بن حارث بن مصین بن نالغہ بن لحیان بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضرایک
روایت کے رو سے سلمہ الخیر بن عبد اللہ ابو طریف آیا ہے بصرہ میں سکونت کرلی تھی ابن ما کولا کے خیال میں ان کا نسب یوں تھا نبیشۃ الخیر بن عمرہ بن عوف بن سلمہ
بن حنش بن طیار بن دیال بن عمیر بن عادیہ بن صعصعہ بن واثلہ بن لحیان بن ہذیل، ایک اور روایت کے مطابق یوں ہے نبیشۃ بن عبد اللہ بن شیبان بن عقان بن حارث بن جون
بن حارث بن عبد العزی بن وائل بن لحیان بن ہذیل۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں الخیر کے لقب سے اس لیے نوازا کہ وہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند جنگی قیدیوں کو وہاں
دیکھا تو عرض کیا، یا رسول اللہ! یا تو فدیہ لے کر انہیں آزاد فرما دیجیے اور یا احسان کرکے چھوڑ دیجیے فرمایا تم نے اچھی بات کہی اس لیے آج سے تم نبیشۃ الخیر
ہو۔
اسماعیل، ابراہیم اور ابو جعفر نے بذریعہ اس سند کے جو ابو عیسیٰ تک جاتی ہے بیان کیا کہ ہم نے نصر بن علی سے انہوں نے معلی بن اسد ابو الہمان سے انہوں نے اپنی
دادی امِ عاصم سے جو سنان بن سنانہ کی امِ ولد تھی سنا کہ ایک بار ہم ایک برتن میں کھانا کھا رہے تھے کہ نبیشۃ الخیر وہاں آگئے، اور ہمیں حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی فرمایا جو شخص کسی برتن میں کھانا کھائے اور پھر اسے اچھی طرح صاف کردے تو وہ برتن اس آدمی کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہے۔
ابو الملیح ہذلی نے انہی سے روایت کی، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں تبوں کے نام پر قربانی دیا کرتے تھے فرمایا کہ اللہ کے نام پر جس
مہینے میں چاہو ذبح کرو خدا کے نام پر دو اور لوگوں کو کھلاؤ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔