بن حارث بن علقمہ بن کلدہ بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی القرشی العبدری ایک روایت کے رو سے مہاجر ہیں اور دوسری روایت کے مطابق فتح مکہ کے دن ایمان لائے کنیت
ابو الحارث تھی اور ان کے والد حارث رہین کے عرف سے مشہور تھے اور محمد بن مرتفع ان کی نسل سے تھے۔
نضیر رضی اللہ عنہ اللہ کے شکر گزار بندے تھے کہ خدا نے انہیں نعمتِ اسلام سے نوازا اور اپنے بھائی نضر اور آباؤ اجداد کے برخلاف دین اسلام پر فوت ہوئے اور حنین
کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سو اونٹ عطا فرمائے تھے جب نبو دیل کے ایک آدمی نے آکر انہیں خوشخبری دی اور کہا کہ مجھے بھی ان اونٹوں
سے کچھ دے دینا تو انہوں نے اس بنا پر لینے سے انکار کردیا کہ گویا انہیں اونٹ قبولِ اسلام کے لیے بطورِ رشوت دیئے جا رہے ہیں کہنے لگے میں اپنے اسلام کو اس
لالچ سے کیوں ملوث کروں پھر خیال آیا کہ جب بغیر از طلب وسوال مل رہے ہیں تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عطیہ ہے اس لیے مجھے بعد شکر قبول کرلینا چاہیے
چنانچہ انہوں نے دس اونٹ اس آدمی کو عطا کردیئے جس نے خوش خبری دی تھی۔
پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نماز اور اوقاتِ نماز کے بارے میں سوالات کرتے رہے پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ! اللہ کو
سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے فرمایا جہاد اور اتفاق فی سبیل اللہ۔
نضیر ہجرت کرکے مدینہ آگئے اور وہاں قیام پذیر رہے تاآنکہ بغرضِ جہاد اسلامی لشکر کے ساتھ شام کو گئے اور جنگ یرموک میں شریک ہوئے اور وہاں رجب سن پندرہ ہجری
میں شہید ہوگئے اور ان کا شمار قریش کے برد بار بزرگوں میں ہوتا تھا ابو عمر اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے ابن اثیر لکھتے ہیں کہ ہر چند وہ یقینی طور پر
صحابی ہیں لیکن ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر نہیں کیا لیکن عجیب تر یہ امر ہے کہ انہوں نے ان کے بھائی نضر کا ذکر کیا ہے حالانکہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں
کہ وہ کافر مرا اور بدر کے دن انتقاماً قتل کردیا گیا تھا جناب نضیر رضی اللہ عنہ بقول ابو عمر مہاجرین سے تھے اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے فتح مکہ کے موقعہ
پر اسلام قبول کیا تھا اور یہی روایت درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ فتح حنین کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹ بطور عطیہ دیئے تھے اور چونکہ
یہ عطیہ صرف مولفۃ القلوب کو دیا گیا تھا اس لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ جناب نضیر بھی فتح مکہ میں ایمان لائے تھے نیز یہ بھی منقول ہے کہ وصولی عطیہ کے بعد جناب
نضیر نے دربار رسالت میں حاضر ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز و اوقات نماز کے بارے میں سوالات کیے اگر وہ مہاجرین میں سے ہوتے تو نماز اور اوقاتِ
نماز کے بارے میں استفسار کرنے میں کیا تک ہے۔