بن مسعود بن عامر بن انیف بن ثعلبہ بن قنقذ بن حلاوہ بن سبیع بن بکر بن اشجع بن ریث بن غطفان، غطفانی اشجعی۔ ان کی کنیت ابو سلمہ تھی غزوہ خندق کے موقعہ پر
ایمان لائے یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے بنو قریظہ غطفان اور قریش میں بدگمانی پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے کا مخالف بنادیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھی، سردی اور
فرشتوں کے لشکر کو مسلّط فرمادیا اور اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی لشکر کفار کے شر سے بچ گئے۔
جب جناب نعیم ایمان لائے تو انہوں نے دربار رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تگو میں کفار کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے کوئی داؤ پیچ کھیلوں
فرمایا اجازت ہے کیونکہ الحرب حذعۃ۔ ان کے بیٹے سلمہ نے ان سے وہ واقعہ نقل کیا ہے جسے علامہ ابن اثیر نے با تفصیل الکامل فی التاریخ میں بیان کیا ہے۔
ابو یاسر بن ابی حبہ نے با سنادہ عبد اللہ بن احمد سے روایت کی کہ انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اسحاق بن ابراہیم الرازی سے انہوں نے سلمہ بن فضل سے انہوں نے
محمد بن اسحاق سے انہوں نے سعد بن اشجعی(وہ ابو مالک ہیں) سے انہوں نے سلمہ بن نعیم بن مسعود الاشجعی سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب وہ قاصد مسیلمہ
کذاب کا رقعہ لے کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقعہ پڑھا تو قاصدوں سے دریافت فرمایا کہ اس خط کے مندر جات کے بارے میں تمہاری
ذاتی رائے کیا ہے؟ انہوں نے کہا جو کچھ اس کے راقم کی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر قاصد کا قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن مار
دیتا۔
جناب نعیم حضرت عثمان کے زمانۂ خلافت میں فوت ہوئے ایک روایت کے مطابق وہ جنگِ حمبل میں بصرے آنے سے پہلے مارے گئے تھے۔ مجاشع بن مسعود سلمی اور حکیم بن جبلہ
عبدی کو بھی یہی صورت حال پیش آئی تینوں نے بیان کیا ہے۔