سیّدنا نعیم رضی اللہ عنہ
سیّدنا نعیم رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن ہزال اسلمی: بنو مالک بن افصی سے تھے ان کے بھائی کا نام اسلم تھا اور انہیں اسلمی اور مالکی کہتے تھے مدینے میں بس گئے تھے۔
ابو احمد عبد الوہاب بن علی ابن سکینہ کو ابو غالب محمد بن حسن الماوری مناولہ نے باسنادہ ابو داؤد سے، انہوں نے محمد بن سلیمان انباری سے انہوں نے وکیع سے انہوں نے ہشام بن سعد سے انہوں نے نعیم بن ہزال سے انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ایک تییم لڑکا جس کا نام ماعز تھا، میرے والد کے زیر تربیت تھا اس نے قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ زنا کیا میرے والد نے اسے کہا آؤ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا واقعہ بیان کرو، شاید وہ تمہاری مغفرت کی کوئی صورت پیدا کرسکیں میرے والد کا مقصد یہ تھا کہ شاید اس کے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے ماعز نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں مجھ پر احکام الٰہی کا اجرا فرمائیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا دو بارہ پھر آیا اور اسی بات کو دہرایا اس طرح ماعز چار دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور اپنی بات کو دہراتا رہا۔ آخری دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کس سے‘‘ ماعز نے نام بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تو اس سے ہم بستر ہوا اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ! کیا تم نے اس سے مجامعت کی اس کا جواب اثبات میں تھا تو آپ نے رحم کا حکم دیا جب پتھر برسنا شروع ہوئے تو شدتِ تکلیف کی وجہ سے چیختا چلاتا بھاگ اٹھا راستے میں عبد اللہ بن انیس سے آمنا سامنا ہوگیا انہوں نے اونٹ کی پنڈلی کی ہڈی سے ڈنڈے کا کام لیا اور ماعز کو قتل کردیا جب حضور کو علم ہوا تو رحمت عالم نے فرمایا اگر تم اس سے مزید تعرض نہ کرتے تو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا۔
ابن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے انہوں نے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب سے روایت کی کہ وہ جابر بن عبد اللہ کے پاس گئے اور کہا کہ بنو اسلم کے لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس(ماعز) کے چیخنے چلانے کا ذکر کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا مجھے اس حدیث کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے! مجھے اس حدیث کا ٹھیک سے علم ہے کیوں کہ میں بھی اسے رحم کرنے والوں میں شامل تھا جب ہم اسے لے کر چلے، اور سنگ باری شروع کی تو وہ شدتِ درد سے چلا اٹھا کہنے لگا اے لوگو! مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو کہ میری قوم مجھے قتل کر رہی ہے اور انہوں نے مجھے دھوکا دیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے اسے اس وقت چھوڑا جب وہ مرچکا تھا بعدۂ ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا فرمایا تم نے اسے چھوڑ دیا ہوتا اور اسے میرے پاس لے آتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اس کا ثبوت طلب فرماتے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ترکِ حد نہ ہوتا ماعز چھوٹے قد کا بد نما آدمی تھا۔ حضور نے فرمایا مجھے اس ذات کی قوم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں اسے جنت کی نہروں میں تیرتا دیکھ رہا ہوں تینوں نے اسے بیان کیا ہے ابن مندہ کو اس میں شبہ ہے ابو عمر کہتے ہیں کہ ایک روایت کے رو سے نعیم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی ہاں البتہ ان کے والد ہزال کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی تھی اور یہی روایت اولی بالصواب ہے۔ واللہ اعلم۔
[۱۔ یہ حدیث اس وقت درست ہوگی اگر یہ ثابت ہو کہ ماعز شادی شدہ تھا۔(مترجم)]