بن عبد اللہ الخام۔ ان کا نسب نعیم بن عبد اللہ بن اَسِید بن عبد عوف بن عَبِیْد بن عُویَجٰ بن عدی بن کعب القرشی العدوی ہے ابو عمر نے بھی ان کا نسب یوں ہی
بیان کیا ہے کلبی نے بھی اسی طرح لکھا ہے مگر صرف اتنی تبدیلی کی ہے: اسید بن عبد بن عوف انہیں نحام اس لیے کہتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
آپ جنت میں داخل ہوئے تو آپ نے وہاں نعیم کی نخ نخ کی آواز سنی اور یوں ان کی آواز کافی دیر آتی رہی۔
نعیم قدیم الاسلام لوگوں میں سے تھے ایک روایت کے مطابق وہ گیارہویں مسلمان تھے اور ایک دوسری روایت کے رو سے انتالیسویں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پیشتر جناب
نعیم نے اپنا اسلام چھپایا ہوا تھا اور چونکہ ان کا قبیلہ ان کا احترام کرتا تھا اور وہ اپنے قبیلے کی بیوہ عورتوں اور یتیمیوں پر کشادہ دلی سے خرچ کرتے تھے اس
لیے انہوں نے انہیں ہجرت سے روکے رکھا، اور اجازت دے دی کہ جس دین پر چاہو عمل کرو، لیکن یہاں سے جاؤ مت جب تک ہم زندہ ہیں تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اس
کے بعد وہ ہجرت کے چھٹے سال مدینے آگئے یہ صلح حدیبیہ کا سال تھا۔ بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے۔
جب وہ واردِ مدینہ ہوئے تو ان کے ساتھ ان کی قوم کے چالیس آدمی تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا فرمایا تمہاری قوم میری قوم
سے اچھی ہے کہ انہوں نے تجھے اپنے پاس ٹھہرائے رکھا اور میری قوم نے مجھے گھر سے نکال دیا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کی قوم اس لیے اچھی ہے کہ اس نے آپ
کو ہجرت کا موقع فراہم کیا اور میری قوم نے مجھے روکے رکھا۔
ان سے نافع اور محمد بن ابراہیم یتیمی نے روایت کی ابن اثیر کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ ان دونوں کو جناب نعیم سے سماع کا موقعہ نہیں ملا۔
حضرت عمر کے دورِ خلافت میں پندرہ سنِ ہجری میں نعیم بن عبد اللہ معرکۂ یرموک میں شہید ہوئے ایک اور روایت کے رو سے تیرہ سنِ ہجری میں معرکۂ اجنا دین میں بھی
موجود تھے تینوں نے ذکر کیا ہے۔