بن عبد الحارث بن حبالہ بن عمیر بن غیثن(اس کا نام حارث بن عبدِ عمر و بن عمرو بن لوئی بن ملکان بن اقصی الخزاعی تھا) سب لوگوں نے انہیں خزاعی لکھا ہے اور ان کے سلسلۂ نسب کو بنو ملکان یعنی اخو خزاء اور اخواسلم تک لے گئے ہیں اور چونکہ ملکان کی تعداد کم تھی اس لیے ان میں سے بعض کو نبو خزاعہ سے منسوب کردیتے تھے نافع کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بھی کی۔
حضرت عمر نے انہیں مکے اور طائف کا عامل مقرر کردیا تھا جہاں قریش اور بنو ثقیف کے جلیل القدر سردار مقیم تھے نافع حضرت عمر سے ملنے گئے اور اپنے غلام عبد الرحمٰن بن ابتری کو اپنا جانشین مقرر کر گئے خلیفہ نے اس جانشینی کو نا پسند کیا اور نافع کو معزول کودیا اور خالد بن عاص بن ہشام کو مقرر کردیا جناب نافع کا شمار جلیل القدر فضلا میں ہوتا تھا فتح مکہ کے دن اسلام لائے وہیں سکونت رکھ لی اور ہجرت نہ کی ابو سلمہ حمید اور ابو الطفیل نے ان سے روایت کی ہے۔
ابو یاسر بن ابی حبہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے روایت کی کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ انہیں وکیع نے سفیان سے انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انہوں نے حمید بن عبد الرحمٰن اور مجاہد سے اور انہوں نے نافع بن عبد الحارث سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آدمی کو خوش قسمت سمجھو جس کا مکان وسیع ہو، ہمسایہ صالح ہو، اور گھوڑا مبارک قدم ہو۔
نیز ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ان سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مدینے کی ایک حویلی میں داخل ہوئے اور ایک کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اتنے میں حضرت ابو بکر آگئے اور انہوں نے حاضری کی اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر کو اندر آنے کی اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی پہنچادو پھر حضرت عمر آئے اور ان سے بھی یہی صورت حال پیش آئی آخر میں حضرت عثمان آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی جنت کی بشارت دی اور فرمایا عثمان کو ایک ابتلا پیش آئے گا۔
واقدی جناب نافع کو صحابی نہیں گردانتا اور اس حدیث کا راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری کو قرار دیتا ہے تینوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔