ابو سلیمان منذر بن ساوی کے آزاد کردہ غلام تھے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے انہوں نے حلب میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔
اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن نافع العبدی سے حلب میں سنا کہ ان کے والد نے ذکر کیا کہ منذر بن ساوی حاکم بحرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بمقام مدینہ حاضر ہوا منذر کے ساتھ ایاس بھی تھا اور میں دنوں ابھی بچہ تھا اور ان باتوں کو نہیں سمجھتا تھا میں نے ان کے اونٹ روک رکھے اور وہ دونوں ہتھیاروں سمیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے چلے منذر نے اپنا ہتھیار رکھ دیا کپڑے بدلے اور ڈاڑھی کو تیل لگایا اور پھر دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے منذر! میں نے تم میں ایسی چیز دیکھی جو تمہارے ساتھیوں میں نہیں پائی جاتی اس نے دریافت کیا یا رسول اللہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو صرف مجھ میں ہے فرمایا تم نے ہتھیار رکھ دیئے کپڑے بدلے اور تیل لگایا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ وہبی چیز ہے یا کسبی فرمایا وہبی اس پر وہ لوگ اسلام لے آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبو عبد القیس نے بخوشی اسلام قبول کیا جب کہ باقی لوگوں نے مجبورا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی برکات سے نوازے اس کے بعد جناب نافع نے اپنے بیٹے سلیمان سے کہا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے یوں بیٹھے دیکھا جیسے تمہیں دیکھ رہا ہوں ابن مندہ ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں کہ جو بات منذر بن ساوی کی طرف منسوب کی گئی ہے فی الحقیقیت اس کا قائل اشج العبدی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تھا کہ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ کو بڑی پسند ہیں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ جیلی ہیں یا کسبی ہیں فرمایا جیلی اس پر جناب اشج العبدی نے کہا خدا کا شکر کہ اس نے مجھے ایسی جبلی خصلتیں عطا کی ہیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔