بن ابی نافع الرواسی۔ علقمہ کے دادا تھے ان سے حمید بن عبد الرحمان ابو عوف رواسی نے بیان کیا کہ جب عمر و بن مالک دربار رسالت میں حاضر ہوا تو میں بھی اس وفد میں شامل تھا اس کے بعد اس نے اپنی قوم کو اسلام لانے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے کہا، جب تک ہم بنو عقیل سے انتظام نہ لے لیں، ہم اسلام قبول نہیں کریں گے چنانچہ انہوں نے بنو عقیل کے ایک گروہ پر حملہ کرکے ایک آدمی کو قتل کردیا اس پر پر بنو عقیل نے پیچھا کرکے ان کے ایک آدمی کو مار ڈالا جنگ چھڑ گئی بنو عقیل میں ایک آدمی جس کا نام ربیعہ بن منتفق تھا، وہ بطریق رجز ذیل کا شعر پڑھ رہا تھا۔
اقسمت لا اقتل الا نار سا
|
|
اِن الرجال لبسو القلا نسا
|
ترجمہ: میں نے قسم کھائی ہے کہ میں شاہ سواروں ہی سے لڑوں گا بلا شبہ بہادروں نے سر پر خود کفن پہن لیے ہیں۔
اس پر ایک آدمی نے اپنے قبیلے سے مخاطب ہوکر کہا اے میری قوم! کیا تم دن بھر اسی طرح بیٹھے رہو گے یہ سن کر ان کا ایک آدمی مجرش بن عبد اللہ ربیعہ کے مقابلہ کے لیے نکلا ربیعہ نے نیزے سے اس کو زخمی کردیا اور گھوڑا چھین لیا اس پر مجرش نے اپنے قبیلے کو یا آلِ رواس کہہ کر مدد کے لیے پکارا ربیعہ نے استہزاءً کہا رواس گھوڑے ہیں یا انسان ہیں۔
اس کے بعد عمر و بن مالک اپنے ہاتھ باندھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور طالب معانی ہوا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصّے سے منہ پھیرلیا پھر التجا کی اور کہنے لگا یا رسول اللہ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ اللہ بھی خطا کار کی توبہ قبول کرلیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی میری تقصیر معاف فرمادیں رحمتِ عالم نے درگزر فرمادیا تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔