بن سمعان بن خالد بن عمرو بن عبد اللہ ابو بکر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ عامری کلابی شامی شمار ہوتے ہیں روایت ہے کہ ان کے والد سمعان بن خالد حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اس کے بعد جناب سمعان نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتوں
کا ایک جوڑا پیش کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا پھر انہوں نے اپنی بہن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زجیت میں دے دیا، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ
وسلم اس عورت کے پاس گئے تو اس نے بیزاری ظاہر کی اس کی بیزاری کے بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
جناب نواس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سے جییر بن نفیر اور بشر بن عبد اللہ وغیرہ نے جناب نواس سے روایت کی۔
ابراہیم وغیرہ نے باسناد ہم ابو عیسیٰ سے انہوں نے علی بن حجر سے انہوں نے ولید بن مسلم اور عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر طائی سے انہوں نے عبد
الرحمان بن جبیر سے، انہوں نے اپنے والد جبر بن نفیر سے انہوں نے نواس بن سمعان کلابی سے روایت کی کہ ایک صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا لیا اور پھر اوپر اٹھایا اس سے ہم یہ سمجھے کہ دجال اس طائفے میں موجود ہے جو کھجوروں کے نیچے ٹھہرا ہوا ہے چنانچہ ہمادھر کوچل
دیئے پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری پریشانی کو سمجھ گئے تھے فرمایا کیا معاملہ ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ!
آج جب آپ نے دجال کا ذکر فرمایا تھا ہم سمجھے کہ شاید وہ ان لوگوں میں موجود ہے جو کھجور کے نیچے ٹھہرے ہوئے تھے فرمایا مجھے دجال کے علاوہ بھی بعض اشرار کا خوف
ہے اگر میرے ہوتے کسی کا ظہور ہوا تو میں خود اس کا مقابلہ کروں گا لیکن اگر میرے بعد اس کا ظہور ہوا تو ہر آدمی کو خود اپنا بچاؤ کرنا پڑے گا۔ اور اللہ تعالیٰ
میری طرف سے تمہاری کفالت کرے گا دجال نوجوان ہے اس کے بال گھنگھریالے ہیں اور اس کی آنکھیں بے نور ہیں اور اس کی شکل عبد العزمی بن قطن سے ملتی جلتی ہے تینوں
نے اس کا ذکر کیا ہے۔
نوح رضی اللہ عنہ بن مخلد ضبیعی، جو ابو حمزہ نصر بن عمران کے دادا تھے ابو حمزہ نصر بن عمران نے اپنے دادا انوح بن مخلد سے روایت کی کہ وہ رسول کریم سے ملاقات
کرنے کو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک مکے ہی میں تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو انہوں نے جواب دیا
ضبیعہ بن ربیعہ سے حضور نے فرمایا ربیعہ کے ذیلی قبائل میں عبد القیس کا نمبر پہلا ہے اور پھر تمہارا راوی کہتا ہے پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوحلے
دے کر انہیں خرید و فروخت کے لیے یمن کو روانہ کیا تینوں نے ذکر کیا ہے۔