بن حارث بن عبدلمطلب بن ہاشم بن عبد مناف قرشی ہاشمی ان کی کنیت ابو الحارث تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمزادا ور بھائیوں میں سب سے بڑے تھے وہ
غزوۂ بدر میں جنگی قیدی بنالیے گئے تھے اور حضرت عباس نے فدیہ دے کر انہیں آزاد کرایا تھا اور پھر مسلمان ہوگئے تھے ایک روایت کے مطابق وہ غزوۂ خندق کے موقعہ پر
ایمان لائے اور پھر ہجرت کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنے بہت سے تیر بطور فدیہ دے کر رہائی حاصل کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس اور
ان کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی یہ دونوں حضرات زمانہ جاہلیت میں بھی ایک دوسرے سے لین دین میں اور میل ملاپ میں بہت قریب تھے۔
جنابِ نوفل، فتح مکہ غزوۂ حنین اور طائف میں شریک رہے اور حنین کی ابتدائی بدحواسی میں وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے اور اس غزوے
میں انہوں نے اسلامی لشکر کی امداد کے لیے تین ہزار تیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے نوفل! میں دیکھ
رہا ہوں کہ میدان جنگ میں تیرے دشمنوں کی پیٹھوں کو برما رہے ہیں۔
عبد اللہ بن حارث بن نوفل سے مروی ہے کہ جب جناب نوفل غزوۂ بدر میں گرفتار ہوگئے تو حضور اکرم نے ان سے کہا تم فدیہ ادا کرکے آزادی حاصل کرلو انہوں نے جواب دیا
میرے پاس زرِ فدیہ نہیں رہائی کیسے ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیر جو تم نے جدہ میں رکھے ہوئے ہیں وہ کس کام آئیں گے انہوں نے کہا میرے ان تیروں
کا علم خدا کے بغیر کسی کو نہیں ہے یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں چنانچہ نوفل مسلمان ہوگئے اور تیر دے کر رہائی حاصل کرلی تیروں کی تعداد ایک ہزار تھی۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو مشورہ دیا کہ وہ فدیہ دے کر اپنی اور اپنے دو
بھتیجوں نوفل بن حارث اور عقیل بن ابی طالب کی گلو خلاصی کرالیں۔
عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی کہ نوفل بن حارث نے اپنے دونوں بیٹوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ آپ انہیں صدقات کے جمع کرنے پر مقرر
فرمادیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چونکہ تم دونوں اہل بیت سے ہو اور صدقات میں سے تمہارے لیے کچھ بھی جائز نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ کوئی ایسی چیز بھی درست
نہیں ہوسکتی جس سے ہاتھ دھوئے جاسکیں ہاں خمس میں سے پانچواں حصّہ تمہارے لیے جائز ہے اور اس سے تمہاری ضرورتیں پوری ہوجائیں گی۔
جناب نوفل نے ۱۵ ہجری میں وفات پائی تینوں نے ذکر کیا ہے۔