سیّدنا نعمان رضی اللہ عنہ
سیّدنا نعمان رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن مقرن: ایک روایت کے رو سے ان کا سلسلۂ نسب حسب ذیل ہے: نعمان بن عمرو بن مقرن بن عائد بن میجا بن ہجیز بن حبشیہ بن کعب بن عبد بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان بن عمرو بن اوبن طابخہ مزتی اور عثمان کی اولاد مزینہ شمار ہوتی تھی کیونکہ وہ اپنی ماں کی طرف منسوب تھے ان کی کنیت ابو عمرو یا ابو حکیم تھی اور فتح مکّہ کے موقعہ پر بنو مزینہ کا علم ان کے پاس تھا مصعب سے مروی ہے کہ نعمان بن مقرن نے اپنے سات بھائیوں کی معیت میں ہجرت کی تھی۔
ان سے مروی ہے کہ بنو مزینہ کا وفد جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو وہ چار سول سواروں پر مشتمل تھا اولاً انہوں نے بصرے میں سکونت اختیار کی پھر کوفے میں منتقل ہوگئے اور بعد میں مدینے آگئے اور وہاں قادسیہ کی فتح ان کے طفیل حاصل ہوئی۔
جب نہاوند پر حملہ ہونے کے لیے سوار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے تو خلیفہ نے اہل بصرہ اور کوفہ کو لکھا کہ دونوں شہروں کے دو ثلث مرد ان کار اسلامی لشکر میں شمولیت کے لیے مدینہ پہنچ جائیں میں ان کی کمان ایسے آدمی کے حوالے کروں گا جو اس کام کے لیے موزوں ہوگا مسجد نبوی میں آئے تو نعمان بن مقرن کو نماز پڑھتے دیکھا انہوں نے انہیں میدانِ جنگ کو روانگی کا حکم دیا اور لشکر کی کمان ان کے سپرد کی اور فرمایا کہ اگر نعمان شہید ہوجائیں تو حزیفہ کمان سنبھال لیں اور اگر حزیفہ بھی شہید ہوجائیں تو جِریر کمان دار ہوں گے۔
نعمان نے کوچ کیا اور ان کے ساتھ حزیفہ، مغیرہ بن شعبہ، اشعت بن قیس، جریر اور عبد اللہ بن عمر بھی تھے جب نہاوند کے مقام پر پہنچے تو جناب نعمان نے اسلامی لشکر سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’اے مسلمانو! میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک رہا ہوں جب تک زوال نہ ہوجاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی جنگ کو آخری شکل نہیں دیتے تھے اے اللہ تو نعمان کو شہادت عطا فرما، اور مسلمانوں کو دشمن پر فتح عطا فرما‘‘ اس پر سارے لشکر نے آمین کہی نیز جب میں علم کو تین دفعہ ہلاؤں تو آخری جنبش پر یک لخت دشمن پر حملہ کردینا اور اگر میں مارا جاؤں تو میرے پاس کوئی نہ رکے جب کمان دار نے تیسری بار علم کو جنبش دی، تو مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی یہ جنگ اکیس ہجری میں واقع ہوئی تھی اقور کماندار کی شہادت جمعہ کے دن ہوئی تھی۔
جب خلیفہ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو مسجد میں آئے اور منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو نعمان کی شہادت کی خبر سنائی پھر سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگ گئے جناب عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا ایمان کے بھی گھر ہیں اور نفاق کے بھی گھر ہیں ابن مقرن بھی ایمان کا یک گھر تھا۔ جنابِ نعمان سے معقل بن یسار محمد بن سیرین اور ابو خالد والبی نے روایت کی۔
اسماعیل بن علی وغیرہ نے بذریعہ اس اسناد کے جو ابو عیسی ترمذی تک پہنچتا ہے، کہا کہ ہمیں حسن بن علی الخلال نے انہیں عقان بن مسلم اور حجاج بن منہال نے بتایا کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے انہیں عمران الجونی نے علقمہ بن عبد اللہ مزنی سے جو بکر بن عبد اللہ کے بھائی ہیں انہوں نے معقل بن یسار سے روایت کی، کہ جب حضرت عمر رضی اللہ نے نعمان بن مقرن کو ہر مزاں کے خلاف جنگ کے لیے روانہ کیا اس کے بعد ساری حدیث مفصل بیان کی جناب نعمان نے اسلامی لشکر سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک رہے ہیں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم دن کے ابتدائی حصے میں جنگ نہ کرتے تو زوال کا انتظار فرماتے ہوائیں چلتیں اور آسمان سے فتوحات نازل ہوتیں تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔