سیّدنا نعمان رضی اللہ عنہ
سیّدنا نعمان رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن ثعلبہ بن سعد بن خلاس بن زید بن مالک الا غربن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر انصاری خزرجی ان کی والدہ کا نام عمرہ دختر رواحہ تھا جو عبد اللہ بن رواجہ کی بہن تھیں مالک الاغر ان کی والدہ اور والد کا چند پشتوں کے بعد مشترکہ جد بنتا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے آٗٹھ سال سات مہینے پیشتر ان کی پیدائش ہوئی ایک روایت میں چھ برس مذکور ہیں مگر روایت اول قریب بصو اب ہے ابن زبیر کہتے ہیں کہ نعمان ان سے چھ مہینے بڑے ہیں بعد از ہجرت نعمان وہ پہلے آدمی ہیں جن کی ولادت انصار میں ہوئی۔ انہیں اور ان کے والد کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔
ان سے ان کے دونوں بیٹوں محمد اور بشیر کے علاوہ شعبی، حمید بن عبد الرحمٰن خثیمہ سماک بن حرب سالم بن ابی الجعد، ابو اسحاق سبعی اور عبد الملک بن عمیر و غیرہ نے روایت کی۔
احمد بن عثمان بن ابی علی زرزاری نے ابو القاسم اسماعیل بن ابو الحسن بن علی بن حسین الحمامی سے انہوں نےابو سعید مسعود بن ناصر بن ابی زید الرکاب السجزی سے انہوں نے ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم المزکی سے انہوں نے ابو محمد یحییٰ بن منصور القاضی سے انہوں نے یحییٰ بن یحیی سے روایت کی انہوں نے کہا کہ انہوں نے مالک سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے حمید بن عبد الرحمان اور انہوں نے محمد بن نعمان بن بشیر سے روایت کی کہ ان کے والد انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دینا چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم اپنے سب بیٹوں سے برابر کا سلوک کرو گے انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس لے جاؤ۔
ابراہیم بن محمد کے علاوہ کئی اور لوگوں نے اپنے اس اسناد کے رو سے جو محمد بن عیسیٰ تک جاتا ہے بیان کیا کہ ہمیں قیتبہ بن سعید نے حماد بن زید سے انہوں نے مجالد سے انہوں نے شعبی سے انہوں نے نعمان بن بشیر سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حرام اور حلال بالکل واضح ہیں مگر ان دونوں کے درمیان کچھ امور ایسے ہیں جو واضح نہیں ہیں اور اکثر لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ ان امور میں حرام کون سے ہیں اور حلال کون سے ہیں جس آدمی نے اپنے دین اور عزت کو آلودگی سے بچائے رکھا وہ بچ گیا اور جس شخص نے ایسی اشیا سے سروکا رکھا، جو حرام سے ملتی جلتی تھیں اس کی مثال اس جانور کی طرح ہوگی جو ممنوعہ رقبے کے آس پاس چرتا ہو ایسا جانور ممنوعہ رقبے میں داخل ہوجاتا ہے ہر بادشاہ کی خالصہ جاگیر ہوتی ہے خدا وند تعالیٰ کی خالصہ جاگیر محرمات ہیں۔
بعض علمائے حدیث کی رائے بقول ابو عمر یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نعمان بن بشیر کی روایتِ سماع درست نہیں ہے لیکن علامہ ابن اثیر کہتے ہیں کہ وہ نعمان بن بشیر کے سماع کے قائل ہیں کیونکہ شعبی نے خود جناب نعمان کو کہتے سنا کہ انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کا شرف حاصل تھا۔
بعد میں امیر معاویہ نے انہیں حمص کا اور پھر کوفے کا والی مقرر فرمایا بعد میں یزید نے بھی انہیں یہ منصب دیئے رکھا کیونکہ ان کا رجحانِ طبع امیرِ معاویہ کی طرف تھا جب یزید کے بعد معاویہ بن یزید فوت ہوگیا تو جناب نعمان نے شام میں لوگوں کو عبد اللہ بن زبیر سے بیعت کی ترغیب دی لوگوں نے ان کی مخالفت کی وہ حمص سے بھاگ نکلے مگر عوام نے ان کا تعاقب کرکے قتل کردیا یہ واقعہ مرج راہط میں ۶۴ ہجری کے ماہِ ذوالحج میں پیش آیا جناب نعمان، کرم النفس سخی شاعر اور اپنے عہد کے بہادر آدمی تھے۔
ابو محمد ابو القاسم ومشقی کو انکے والد نے کتابۃً بتایا کہ انہیں حسن بن علی بن احمد بن حسن اور ابو غالب اور ابو عبد اللہ نے بتایا کہ انہیں محمد بن احمد بن علی بن انبوسی نے انہیں ابو الحسن دار قطنی نے(ان کا قول ہے، کہ انہیں میرے والد نے بتایا) انہیں ابو سعید احمدبن محمد بغدادی نے انہیں ابو منصور محمد بن احمد بن علی بن شکرویہ اور ابو بکر محمد بن احمد بن علی السمار نے بتایا کہ ہمیں ابراہیم بن عبد اللہ بن محمد بن خوشند نے بتایا کہ ہمیں قاضی حسین بن اسماعیل نے انہیں عبد اللہ بن ابی سعد نے انہیں عبد اللہ بن حسین نے بتایا کہ انہیں ابراہیم بن حسن بن ربیع نے انہیں ہیشم بن عدی نے بتایا کہ جب امیر معاویہ نے نعمان بن بشیر کو کوفے کی حکومت سے معزول کرکے انہیں حمص کی حکومت عطا کی تو اعشی ہمدانی نعمان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نعمان نے دریافت کیا کہو بھائی کیسے آئے ہو اعشی نے کہا اے نعمان! میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ ازراہِ صلۂ رحمی میری قرابت کا خیال رکھیں اور میرا قرض ادا کردیں۔ نعمان نے سر جھکالیا پھر سر اٹھایا اور کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے پھر کچھ سوچ کر اٹھا جیسے اسے کوئی بات یاد آگئی ہو اور منبر پر بیٹھ کر اہل حمص سے جن کی تعداد اس وقت رجسٹر میں ۲۰ ہزار تھی کہنے لگا یہ شخص جو اہل القرآن و الشرف سے ہے تمہارا ابن عم ہے تمہارے پاس طلب امداد کے لیے آیا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ انہوں نے کہا اللہ امیر کا بھلا کرے۔ آپ اپنے ابن عم کو انعام سے نوازیں۔ مگر امیر نے ان کی درخواست مسترد کردی انہوں نے کہا ہم نے از خود ان کے لیے ہر آدمی سے دو دو دینار بطورِ چندہ جمع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اس لےی آپ فوری طور پر یہ رقم بیت المال سے ادا کردیں چنانچہ امیر نے فوراً یہ رقم(چالیس ہزار دینار) ادا کردیئے اس پر اعشی نے ذیل کے اشعار پڑھے۔
فلم ارللحا جات عند انکما شہا
|
کنعمان اعنی ذا الندی ابن بشیر
|
ترجمہ: اہل حاجت کی حاجت ہر آدمی کے وقت میں نے نعمان بن بشیر کی طرح کا کوئی سخی نہیں دیکھا۔
اذا قال اوفی بالمقال ولم یکن
|
کمدل الی الاقوام حبل غرور
|
ترجمہ: جب وہ کوئی بات کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے اور وہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہے جو قریب کا ڈول ڈالتے ہیں۔
متی اکفر النعمان لم اک شاکراً
|
وما خیر من لا یقتدی بشکور
|
ترجمہ: میں کیوں نعمان کی نا شکری کروں، اور شکر گزار نہ بنوں اس آدمی میں کوئی بھلائی نہیں جو کسی شکر گزار کی تقلید نہ کرے تینوں نے اس کا ذخر کیا ہے۔