سیّد نورعلی مجذوب سموال والہ رحمتہ اللہ علیہ
سیّد نورعلی مجذوب سموال والہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ سیّد خان عالم بن سیّد براہم شاہ بن سیّد محمدسعیددُولاکے فرزنداصغر یعنی چھوٹے بیٹے تھے۔ صاحب صحووسکروکشف و کرامت تھے۔آپ کی بیعت حافظ غلام محمد قادری پیرشاہی سے تھی۔ (تذکرہ مقیمی)
فوجی ملازمت
آپ کو ابتدائے شباب میں شوق ہواتوجالندھرچھاؤنی میں جاکرفوج میں بھرتی ہوگئے۔چندسال وہاں گذارے۔
چلہ نشینی
ایک رات خواب میں حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی۔اُنہوں نےفرمایا بیٹاتیری تلوارزنگ خوردہ ہے۔تلوارایسی ہونی چاہئیے۔جس کو کبھی زنگار نہ لگے۔صبح آپ نے دیکھاتوواقعی آپ کی تلوارکوزنگ لگاہواتھا۔اُسی وقت ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اورواپس چلے آئے اوردرگاہ نوشاہیہ پر چلہ کیا۔
پہاڑ جانے کا حکم
وہاں سے آپ کو حکم ہواکہ پہاڑ میں جاکرعبادت کرو۔دیوان حافظ اورمثنوی مولاناروم رحمتہ اللہ علیہ کا بھی مطالعہ کیاکرنا۔آپ حسب الارشاد نوشاہِ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کے گھر سے روانہ ہوگئے۔پہلے پنڈعزیزمیں پہنچے۔وہاں کے متصل غازی گوڑھا میں ایک حافظ صاحبزادہ رُخرامی قادری رحمتہ اللہ علیہ رہاکرتے تھے۔اُن سے دونوں مذکورہ کتابوں کی تعلیم پائی۔پھرچند عرصہ موضع علی بیگ میں قیام فرمایا۔گاؤں سے باہرجنوبی طرف ایک حجرہ اور ایک چھوٹاساکنواں تیار کروایا۔
مطالعہ کتب
آپ روزانہ پہاڑ میں کھڑے ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرتے اوردیوان حافظ اورمثنوی شریف بھی
بلاناغہ کھڑے ہوئے پڑھاکرتے اورایک جگہ بیٹھ کرسکّھوں کی کتاب آدگرنتھ کابھی مطالعہ کرتے۔
فائدہ
آپ کے پڑوتےسیّد فضل احمد بن سیّد بدرالدین ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کہا کرتے تھے ۔کہ جس جگہ پربیٹھ کرآپ گرنتھ پڑھاکرتے تھے۔وہاں بعد میں ایک گوردوارہ تعمیر ہوگیا۔ جہاں ہندو لوگ عبادت کیاکرتے تھے۔
نشست گاہیں
آپ کاطریقہ تھا کہ ایک جگہ سکونت نہیں رکھتے تھے۔پہاڑ میں تنہاجابیٹھتے۔ وہاں زائرین کا ہجوم ہونے لگتا۔توآپ اس جگہ کوچھوڑ کرکسی اورمقام پر تشریف لے جاتے۔اسی طرح کئی حُجرےآپ کی یادگارہیں۔جہاں لوگ زیارتیں کرتے ہیں۔
لباس
آپ سرپر ٹوپی اورجسم پرسیاہ بُھورا(کنبل)رکھتے تھے۔
کرامات
آپ سے خوارق اکثرظہورہوتےتھے۔
کشفی نگاہ
میاں محمد بخش قادری کھڑی والہ رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تذکرہ مقیمی میں لکھاہے۔
(میاں فیض بخش ولی سجادہ نشین کھنیارہ شریف علاقہ چومکھ ریاست جموں نے )"بعد واپسی بمقام
سُکھ چَین پورصاحبزادہ نورعلی جو مست مجذوب صاحبِ حال ولی اوراولاد حضرت نوشہ حاجی گنج بخش سجادہ نشین نوشہرہ سے تھے۔ملاقات کی۔باوجودمجذوب الحال کے صاحبزادہ نورعلی کی آنحضرت کی تعظیم کے واسطے قیام گاہ سے اُٹھے اورادب سے دوزانوبیٹھ کر فرمایا۔آپ شترمستوارہیں۔آپ کے دوش پر حضرت نبی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سوارہیں۱؎۔
ایک شخص کو لمحہ میں گھرپہچانا
آپ کے پڑوتے سیّد فضل احمد رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ میرے سامنے بابانورمحمد بلواریہ نے بیان کیا ۔کہ ایک روز شام کے وقت میں آپ کے واسطے پہاڑ میں دُودھ لے گیا۔آپ خوش ہوئے اورمجھے اپنے پاس سے روٹی کھلائی۔جب میں واپس جانے لگا تو پہاڑ کے نیچے سے شیرکے دھاڑنے کی آواز آئی۔آپ نے پوچھاڈرے گاتونہیں؟ میں نے عرض کیا ڈر توبہت ہے۔آپ نے فرمایا۔اچھاآنکھیں بندکر۔میں نے بند کیں۔آپ نے مجھ کو آگے دبایا۔ جب آنکھیں کھولیں تو اپنے گھرمیں کھڑاتھا۔
۱؎بوستانِ قلندرص۱۵۱ترجمہ اُردوتذکرہ مقیمی ۱۲ سیّد شرافت
سموال کو آباد کرانا
موضع سموال متعلقہ ریاست جمّوں حضرت پیراشاہ قلندردمڑیوالہ قادری رحمتہ اللہ علیہ کی بددعاسے ویران ہوچکاتھا۔اس جگہ باشندے چِبھ راجپوت موضع دعَورہ جابسے۔ بڑے بڑے اولیأاللہ سے دعائیں کروائیں کہ ہماری بستی پھرآباد ہومگرکچھ اثرظاہرنہ ہوا۔جب کچھ آبادی کرتے آگ لگ جاتی۔آخر حافظ مقیم قادری رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو بتایاکہ اگرحضرت سیّد نورعلی نوشاہی دعاکریں تویہ بستی آبادہوسکتی ہے۔چنانچہ وہ لوگ حافظ صاحب کے کہنے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اوراپنی درخواست پیش کی۔آپ وہاں چلے گئے اورایک مسجد تعمیر کروائی اورخود اس میں رہنے لگے۔جب آپ کے مرشد حافظ صاحبزادہ رُخرمی رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ہوا توآپ نے اُن کو وہاں دفن کروایااوران کے بیٹے حافظ قادری رحمتہ اللہ علیہ کوبھی وہیں حجرہ بنوا دیا۔باشندگان دیہہ قوم چبھ بھی آکر آبادہوگئے اور آپ کے دم قدم کی برکت سے سموال شریف شان وشوکت سے
آج تک آبادہے۔
ایک شخص کو گاؤں کامالک بنانا
منقول ہے کہ کچھ عرصہ آپ نے سُکھ چَین پور میں ڈیرہ رکھا۔ وہاں پیرانام زمیندار آپ کو روزانہ دودھ پلایاکرتا۔آپ ایک دن مستواری کی حالت میں بَھنگ میں رگڑالگارہےتھے اورجوش سے یہ کلمات زبان پر جاری تھے۔"بابے پیرے دانوشہرہ۔بابے پیرے دا نوشہرہ"یعنی حضرت پیرمحمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ ،نوشہرہ کے مالک ہیں۔اسی اثنأ میں وہ زمیندار دودھ لے کر آگیا۔آپ نے جذبہ سے پوچھاتیرانام کیا ہے۔اُس نے کہا پیرا۔آپ نے فرمایاتوبھی گاؤں کا مالک ہوجائے گا۔چنانچہ آپ کی دعاسے وہ موضع ڈھامٹ کا سردارہوگیا۔
۱؎ان کا اصلی نام غلام محمود تھا۔کتاب سلسلتہ الاولیأ میں ہے۔"حافظ غلام محمود مشہور باسم صاحبزادہ ولدحافظ محمد مقیم درظاہروباطن کامل مریدِ والدخودبودوبامیرحیدرشاہ نیزصحبت داشت قبرش در سموال ست"۱۲ سیّد شرافت
سورج کوچُھپادینا
منقول ہے کہ جب آپ سُکھ چَین پورمیں رہاکرتے تھے۔توآپ کو سوبھاں نام کھترانی سے عشق ہوگیا۔ایک دن سکّھوں نے ازراہِ عداوت آپ کو دریائے جہلم میں پَھینک دیا۔لیکن آپ کوپانی گھٹنوں تک آیا۔پھرانہوں نے ایک سکھ تحصیلدار سے شکایت کی۔اُس نے سوبھاں کو موضع کالامیں بھجوادیا۔آپ نے جب دوسرے دن اپنی محبوبہ کو نہ دیکھاتو سکّھوں کو کہا کہ تم نے ہماری سوبھاں چھپائی ہے۔ہم نے تمہاراسورج چُھپالیاہے۔چنانچہ اسی وقت اندھیرا چھاگیا۔جب تحصیلدارکو خبرہوئی تو سکھوں سمیت آکر قدمبوس ہوااور سوبھاں کو لباس اورزیورسے آراستہ کرکے آپ کے سامنے لائے۔آپ خوش ہوئے اورفرمایایہ ہماری بیٹی ہے۔اس کو گھرلے جاؤ۔اب سورج نکل آئےگا۔نیزفرمایا۔تم لوگوں نے ہم کوچَین کروایاہے یہاں قیامت تک چین ہوتارہے گا۔چنانچہ
وہاں ہرسال بساکھی کا میلہ لگتاہے۔
سنہری چھڑی کی دعادینا
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ کوٹلی میں تشریف لے گئے۔ وہاں آپ کا ایک مرید ملاح نہایت مفلس الحال تھا۔اس نے آپ کی خدمت دل وجان سے کی۔آپ اس پر خوش ہوئے اورفرمایااب تم سونے کی چَھڑی رکھنے کے قابل ہو۔چنانچہ اُن ایام میں مہاراجہ رنجیت سنگھ لشکر سمیت کشتی پر سے گذرا۔ایک خاص مقرب کا ردارکی سنہری چھڑی دریائے جہلم میں گرپڑی۔ہرچند تلاش کی گئی۔مگرنہ مل سکی۔وہ تو چلے گئے۔جب سردیوں کے موسم میں دریا خشک ہوگیا۔توملاح کو چَھڑی مل گئی اوروہ دولت مند ہوگیا۔
شاہانِ مغلیہ کے خزانے کی حفاظت
منقول ہے کہ ایک روزآپ نے چھوٹے چھوٹے پَتھروں کاڈھیرجمع کیااوراپنے دو مریدوں حافظ اصالت اورداردکو فرمایاکہ میں وضوکرنے کے لیے جارہاہوں۔تم اس ڈھیر کی حفاظت کرنا۔یہ شاہِ دہلی کاخزانہ ہے۔آپ جب باہر سے وضورکرکے آئے تو دیکھا کہ دونوں درویش سوئے پڑے ہیں ۔آپ نے دونوں کوایک ایک مطہرلگائی۔کہ میں تم کو محافظ بٹھاگیاتھا۔تم سوگئے مغلیہ بادشاہوں کا خزانہ دشمنوں نے لوٹ لیاہے۔ چنانچہ انہیں دنوں ملک میں خانہ جنگیاں شروع ہوگئیں اور ملک کئی علاقوں میں بَٹ گیا۔اس کے بعد جلد ہی مغلوں کی حکومت ختم ہوگئی۔
نگاہِ جلالیّت کا اثر
ایک مرتبہ میاں قطب شاہ قریشی قادری مدفون میانی پنڈی ضلع گجرات کے سجادہ نشین صاحب گھوڑے پر چڑھ کرآپ کے مقابلہ کو آئے۔آپ نے نگاہِ جلالیّت سے دیکھا تو وہ گھوڑے سے
گرپڑے۔
ایک بچے کو آگ سے سلامت نکالنا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ جہلم میں تشریف فرما تھے۔ایک دن بحالتِ جذبہ ایک بچے محمد صادق نام کو پکڑکرجلتے تنورمیں پَھینک دیا۔اس کے والدین رونے پیٹنے لگے۔آپ نے اُس وقت
بازؤں سے پکڑکرصحیح سلامت باہر نکال لیا۔
فائدہ
اپنے تصرّ ف سے آگ کو سردکردینااولیأاللہ کے واسطے کوئی مشکل نہیں۔چنانچہ حاجی گگن شوریانی رحمتہ اللہ علیہ ہروقت اپنے پاس آگ جلایاکرتے۔ایک روزایک افغان نے اپنابچّہ دعا کے لیے خدمت میں حاضرکیا۔انہوں نے آگ میں ڈال دیا۔جب وہ رونے لگا۔توفرمایاتیرالڑکا تیرے گھرمیں ہے۔چنانچہ اُس نے گھرجاکردیکھاتولڑکا گہوراہ میں تھا۱؎۔
اولاد
آپ کا نکاح سیّدہ فضل بی بی بنت سیّد عبدالرسول بن سیّد محمد سعید دُولا ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ سے ہواتھا۔اُن کے بطن سے صرف ایک فرزند سیّد حسن محمد رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
یارانِ طریقت
آپ کے خاص درویش یہ تھے۔
۱۔سیّد حسن محمد رحمتہ اللہ علیہ فرزند آنجناب رحمتہ اللہ علیہ بلوارا
۲۔سائیں دارو مجذوب رحمتہ اللہ علیہ بلوارا
۳۔حافظ اصالت رحمتہ اللہ علیہ ڈھامٹ
تاریخ وفات
سیّدنورعلی کی وفات پچیسویں رمضان ۱۲۳۶ھ مطابق پندرہویں ہاڑ ۱۸۷۷ بکرمی کوبمقام سُکھ چین
پورہوئی۔آپ کی قبرسموال شریف ضلع میرپور۔آزاد کشمیر۔بہشتی دروازہ کے اندرہے۔
مادۂ تاریخ "مظہر کمال"
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)