بن اوس الاشجعی: ایک روایت میں اشعری آیا ہے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں ابو عمر کہتے ہیں انہیں صحابہ میں ان لوگوں نے شمار کیا ہے جنہیں وسعت نظر عطا نہیں ہوئی۔
ان سے ولید بن نمیر نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میرے خیال کے مطابق انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں ہوئی نمیر بن ولید بن نمیر بن اوس نے
اپنے والد سے انہوں نے دادا سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ دعا اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جو قضائے مبرم کو بھی ٹال دیتا ہے
ابو عمر اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے ابن اثیر لکھتے ہیں لیکن ابو موسیٰ نے یہ نہیں لکھا کہ جناب نمیر کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہیں
ہوئی۔
علامہ واقدی کے کاتب محمد بن سعد لکھتے ہیں کہ نمیر بن اوس اشعری شام کے طبقۂ ثالث کے تابعی اور دمشق کے قاضی تھے انہوں نے کم احادیث کی روایت کی انہوں نے ۱۲۸
ہجری میں وفات پائی۔ حافظ ابو القاسم و مشقی لکھتے ہیں کہ نمیر بن اوس اشعری دمشق کے قاضی تھے انہوں نے حزیفہ ابو موسےٰ ابو الدرواء، معاویہ اور ام الدرواء سے
روایت کی اور ان سے ان کے بیٹے ولید، ابراہیم بن سلیمان افطس یحییٰ بن حارث ذماری وغیرہ نے روایت کی جناب نمیز آذر بائجان کے والی رہے۔ علی بن عبد اللہ التمیمی
اور ابو عبید قاسم بن سلام کہتے ہیں کہ نمبر بن اوس نے ۱۲۸ ہجری میں وفات ہوئی اور ظاہر ہے کہ اس سال ہجری میں وفات پانے والا صحابی نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم۔