سیّدنا قیس ابن عاصم رضی اللہ عنہ
سیّدنا قیس ابن عاصم رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن سنان بن خالدبن منقربن عبید بن مقاعس ۔مقاعس کانام حارث بن عمروبن کعب بن سعد بن زیدمناہ بن تمیم تھا۔تمیمی منقری ہیں۔حارث کانام مقاعس اس وجہ سے رکھاگیاکہ انھوں نے بنی سعد بن زیدکے حلیف بننے سے تقاعص (یعنی انکار)کیاتھا۔کنیت ان کی ابوعلی ہےاوربعض لوگ کہتے ہیں ابوطلحہ اوربعض لوگ کہتےہیں ابوقبیصہ مگرپہلاہی قول زیادہ مشہورہے۔ان کی والدہ ام اسفربنت خلیفہ تھیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں بنی تمیم کے وفد کے ساتھ حاضرہوئے تھےاور۹ھ ہجری میں اسلام لائے تھےجب ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاتوفرمایاکہ یہ بدویوں کاسردارہے یہ بڑے عاقل اوربردبارتھے۔بردباری ان کی مشہورہےلوگوں نے احنف بن قیس سے پوچھاکہ تم نےبردباری کس سے سیکھی انھوں نے جواب دیاحضرت قیس بن عاصم سے ایک روز میں نے ان کودیکھاکہ اپنے گھرکے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اپنی تلوارکی حمائل لپیٹےہوئے اپنی قوم کے لوگوں سے باتیں کررہے تھےاسی حالت میں ایک شخص لایاگیاجس کی مشکیں کسی ہوئی تھیں اورایک مقتول کی نعش لائی گئی اوران سے کہاگیاکہ دیکھیے آپ کے اس بھتیجے نے آپ کے بیٹے کوقتل کردیااحنف کہتےتھےخداکی قسم انھوں نے تلوارکی حمائل نہیں کھولی نہ اپنی گفتگو قطع کی گفتگو ختم ہونے کے بعداپنے بھتیجے سے کہاکہ تونے بہت براکام کیاخدا کاگنہگار ہوااورحق قرابت کوقطع کردیااوراپنے ابن عم کوقتل کردیااپناتیرتونے اپنے ہی مارلیااورخوداپنی جماعت کم کردی بعداس کے اپنے دوسربیٹے سے کہاکہ اے بیٹے اپنے چچازادبھائی کی مشکیں کھول دے اوراپنے بھائی کودفن کردے اوراپنی ماں کوسواونٹ اس کے بیٹے کی دیت میں دےدےکیونکہ وہ غریب ہے۔قیس بن عاصم نے زمانہ جاہلیت ہی میں شراب اپنے اوپر حرام کرلی تھی اس کا سبب یہ ہواکہ انھوں نے نشہ کی حالت میں اپنی بیٹی کے شکم پر ہاتھ رکھ دیاتھااوراس کے ماں باپ کوگالیاں دی تھیں اورچاند کودیکھ کر کچھ باتیں کی تھیں اورشراب فروش کو اپنابہت سامال دے دیاتھا جب نشہ دورہواتولوگوں نے یہ حرکات ان سےبیان کیں اس وقت سے انھوں نے شراب کو اپنے اوپرحرام کرلیاتھااوراسی کے متعلق یہ اشعارکہےتھے۔
۱؎ رأیت الخمرصالحتہ وفیھا خصال تفسدالرجل الحلیما
فلاواللہ اشربھاصحیحا ولااشفی بہاابدا سقیما
ولا اعطی بہاثمنا حیاتی ولاادعولہاابداندیما
فان الخمرتفضح شاربیھا وتجینھم بہاامرالعظیما
۱؎ترجمہ۔میں نے شراب کو دیکھاکہ وہ اچھی ہے مگراس میں چنداثرایسے ہیں کہ بردبارآدمی کوبھی خراب کردیتی ہے۔پس خدا کی قسم میں نہ اب اس کو حالت صحت میں پیوں گا۔اورنہ حالت مرض میں کبھی دوائی اس کی استعمال کروں گا۔نہ اپنی زندگی میں کبھی اس کی قیمت دوں گا۔نہ کبھی اس کے یاران جلسہ کو بلاؤں گا۔بے شک شراب اپنے پینے والوں کوفضیحت کردیتی ہے اوران سے بڑے بڑےگناہ صادرکرادیتی ہے۱۲۔
ان سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاتھاکہ میں نے بارہ یا تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کردی تھیں توان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہرلڑکی کے عوض میں ایک غلام آزادکرو۔ہمیں ابراہیم بن محمد وغیرہ نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن عیسیٰ سے نقل کرکے خبر دی وہ کہتےتھے ہم سے بندارنے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سےمحمد بن مہدی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے سفیان بن اغربن صباح سے انھوں نے خلیفہ بن حصین سے انھوں نے قیس بن عاصم سے روایت کر کےخبردی کہ جب وہ اسلام لائے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیاکہ بیری کے پتی پانی میں جوش دے کراس سے غسل کریں حسن بصری نے بیان کیاہے کہ جب قیس بن عاصم کی وفات کا وقت قریب آیاتوانھوں نے اپنے بیٹوں کوبلایااورکہاکہ اے بیٹو یہ چند باتیں میری یادرکھوکوئی شخص مجھ سے زیادہ تمھارا خیرخواہ نہیں ہوسکتاجب میں مرجاؤں توجوتم میں بڑاہواس کو سرداربناناچھوٹے کوسرداربناؤگےتولوگ تمھارے بڑوں کو بے وقوف سمجھیں گے اورتم ان کی نظروں میں ہلکے ہوجاؤگےاوراپنے مال کی اصلاح کو لازم سمجھو کیونکہ مال کریم کے لیے باعث عزت ہے اورلئیم سے محفوظ رکھتاہےاورلوگوں سے سوال نہ کیاکرو کیوں کہ سوال نہایت مجبوری کے درجے میں جائز ہے اور کسی رونے والی عورت کے پاس نہ کھڑے ہوناکیوں کہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ نے رونے والی عورتوں کی حرکات سے منع فرمایاہے۔ان سے حسن اوراحنف اور خلیفہ بن حصین نے اوران کے بیٹے حکیم بن قیس نے روایت کی ہے ۔ہمیں یحییٰ بن محمود نے اجازۃً اپنی سند کے ساتھ ابن ابی عاصم سے روایت کرکے خبردی وہ کہتےتھےہم سے ہدبہ بن عبدالوہاب یعنی ابو صالح مروزی نے نضر بن شمیل سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے شعبہ بن قتادہ سے انھوں نے اپنی وفات کے وقت یہ نصیحت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں تومیرے اوپر نوحہ نہ کرنا کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پرنوحہ نہیں کیاگیا۔انھوں نے بتیس اولادنرینہ چھوڑی تھیں ابوالاشہب نے حسن بصری سے انھوں نے قیس بن عاصم منقری سے روایت کی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئےتھےتوآپ نے فرمایاکہ یہ بدویوں کے سردارہیں کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیااورعرض کیاکہ یارسولاللہ وہ کس قدرہے جس میں میرے اوپرکچھ گناہ نہ ہوآپ نے فرمایااچھامال چالیس اونٹ اورزیادہ ہوں توساٹھ اورسو اونٹ والوں کے لیے توخرابی ہے مگروہ شخص جو ان کے چراگاہ میں اللہ کا حق اداکرے اوران کے نرکو جفتی کے لیے عاریتاً دے اورفقیروں کو سوار کرائے اوران کا دودھ خیرات کرے اورفربہ جانوروں کو ذبح کرے اورقناعت گزیں اورمحتاج لوگوں کوکھلائے میں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ یہ اوصاف تو بہت ہی اچھے ہیں آپ نے پوچھاکہ اے قیس تمھیں اپنا مال زیادہ محبوب ہے یااپنے وارثوں کامیں نے عرض کیاکہ اپنا مال فرمایاتمھارامال تو وہی ہےجوتم کھاؤاورفناکردویاپہن کر کہنہ کردویادے کر گذرجاؤا ورجوباقی رہ گیاوہ تمھارے وارثوں کا ہےمیں نے کہایارسول اللہ اگرمیں زندہ رہاتوبہت تھوڑا چھوڑ جاؤں گا حسن بصری کہتےتھے انھوں نے ایساہی کیا۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7 )