سیّدنا قیس ابن سعد رضی اللہ عنہ
سیّدنا قیس ابن سعد رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبادہ بن ولیم بن حارثہ بن ابی خزیمہ بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ انصاری خزرجی ساعدی۔کنیت ان کی ابوالفضل تھی اوربعض لوگ کہتےہیں ابوعبداللہ اوربعض لوگ کہتےہیں ابوعبدالملک۔والدہ ان کی فکیہہ بنت عبید بن ولیم بن حارث تھیں۔فضلائے صحابہ میں سے تھےاورعرب کے عقلااوراہل کرم میں تھےرائے ان کی صائب ہوتی تھی تدبیر جنگ خوب جانتے تھےاورشجاع اورعالی نسب تھے اپنی قوم کے سردارتھے۔ہمیں ابراہیم اوراسمعیل وغیرہ نے اپنی سند کے ساتھ ابوعیسیٰ سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سےمحمد بن مرزوق بصری نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےمحمد بن عبداللہ انصاری نےبیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے میرے والد نے ثمامہ سے انھوں نے انس سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھےقیس بن سعد بن عبادہ انصاری کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں وہ تقرب حاصل تھاجیساکسی حاکم کوبادشاہ کے یہاں ہوتاہے۔نیز وہ کہتےتھے ہم سے ابوعیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے وہب بن جریرنے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتےتھےمیں نے منصور بن زادان سے سناوہ میمون بن ابی شبیب سے وہ قیس بن سعدبن عبادہ سے روایت کرکے کہتے تھے کہ ان کے والد نے ان کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کام کرنے کے لیے دیاتھاوہ کہتے تھے کہ ایک روزنبی صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف سے گذرے میں نماز پڑھ چکاتھاحضرت نے پیرسے ایک ٹھوکر (بطورپیارکے)مجھے مارکرفرمایاکہ کیامیں تجھے جنت کا ایک دروازہ نے بتاؤں میں نے عرض کیا ہاں بتائیےتوآپ نے فرمایالاحول ولاقوۃ الاباللہپڑھاکرو۔ابن شہاب نے کہاہے کہ قیس بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ انصارکاجھنڈااٹھایاکرتےتھےبیان کیا گیاہے کہ ایک مرتبہ یہ ایک لشکرمیں تھےجس میں ابوبکروعمر رضی اللہ عنہمابھی تھے قیس قرض لے کرلوگوں کو کھلاتے تھےحضرت ابوبکروحضرت عمرنے کہااگرہم اس جوان کواس کے حال پر چھوڑدیں تویہ اپنے باپ کاسب مال خرچ کرڈالے گاچنانچہ انھوں نے اس کا تذکرہ لوگوں سے کیاسعد نے جب اس کو سناتووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھےکھڑے ہوئےاورعرض کیاکہ ابن ابی قحافہ اورابن خطاب کی طرف سے کون میرےسامنے معذرت کرسکتاہےوہ دونوں میرے بیٹے کو بخیل بناناچاہتےہیں۔ابن شہاب نے کہا ہے کہ جب فتنہ پھیلا توعرب میں پانچ آدمی بڑے عقلمند سمجھے جاتے تھےاوران کو عرب کااہل الرائے کہاجاتاتھاوہ پانچ آدمی یہ ہیں ۱)معاویہ۲)عمروبن عاص۳)قیس بن سعد۴) مغیرہ بن شعبہ ۵)عبداللہ بن بدیل بن ورقأ ۔قیس اورابن بدیل حضرت علی کے ساتھ تھےاورمغیرہ طائف میں خانہ نشین ہوگئےتھےاورعمروبن عاص حضرت معاویہ کے ساتھ تھےقیس کہتےتھے اگرمیں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سناہوتاکہ مکروفریب دوزخ میں لے جائےگاتو یقیناً اس امت میں سب سے زیادہ مکارہوتا۔ان کی بخشش کی بھی بہت سی روایتیں ہیں جن کوذکرکر کے ہم طول نہیں دینا چاہتے۔حضرت علی سے جب بیعت خلافت کی گئی تو یہ حضرت علی کے ساتھ رہےاور ان کی تمام لڑائیوں میں شریک ہوئےحضرت علی نے ان کو مصرکاحاکم بنادیاتھاحضرت معاویہ نے ان کے ساتھ بہت حکمت عملی کی کارروائیاں کیں مگران سے پیش نہ پایاپھرانھوں نےحضرت علی کوفریب دیااوریہ ظاہرکیاکہ قیس میرے ساتھ ہوگئے ہیں اورعثمان کاقصاص طلب کرتےہیں یہ خبرحضرت علی کو پہنچی تومحمدبن ابی بکروغیرہ نے اصرارکرکے ان کومعزول کرادیا ان کے بعد حضرت علی نے اشترکومصرکاحاکم بنایامگراشترکااثنائے راہ میں انتقا ل ہوگیاپھر محمدبن ابی بکر کوحضرت علی نے حاکم بنایا مگرنتیجہ یہ ہواکے مصران سے لے لیاگیااوروہ قتل کردیے گئے۔جب قیس معزول ہوکرمدینہ پہنچے تومروان ابن حکم نے ان کوڈرایاپس وہ حضرت علی کے پاس کوفہ میں چلے گئےاورانھیں کے ساتھ رہے اوران کی ہمراہی میں شہید ہوگئے پھرحضرت حسن کے حضرت معاویہ کی طرف گئےاوراان کے لشکر کے مقدمتہ الجیش تھےجب حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے بیعت کرلی توقیس بھی حضرت معاویہ کی بیعت میں داخل ہوگئےاورمدینہ لوٹ آئے۔انھوں نے صفین میں یہ اشعارپڑھےتھے
۱؎ ہذااللوألذی کنانحف بہ مع النبی وجبریل لنامدد
ماضرمن کانت الانصارعیبتہ ان لایکوں لہ من غیرہم احد
قوم اذاحاربواطالت اکفہم بالمشرفیتہ حتی یفتح البلد
۱؎ ترجمہ۔یہ وہی جھنڈاہے جس کو ہم رسول کے ساتھ لیتےتھےاورجبریل ہماری مددکرتے تھے۔ جس کےمددگارانصارہوں اس کونقصان نہیں پہنچ سکتاچاہے پھرکوئی نہ ہو۔ہم لوگ جب لڑتے ہیں توہمارے ہاتھ تلوارکے ساتھ درازرہتےہیں یہاں تک کہ وہ شہرفتح نہ ہوجائے۔
انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ان سے ابوعماریعنی غریب بن حمید ہمدانی اورابن ابی لیلی اورشعبی اورعمروبن شرحبیل وغیرہم نے روایت کی ہے۔ہمیں فقیہ ابوالفضل طبری نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن علی تک خبردی وہ کہتےتھےہم سے ابوبکربن ابی شیبہ نے بیان کیا وہ کہتےتھےہم سے ابن عینیہ نے ابن ابی نجیح سے انھوں نے اپنےوالد سے انھوں نےقیس بن سعد سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے اگرعلم ثریامیں چلاجائے تو فارس کے کچھ لوگ اس کولے آئیں گےان کی وفات ۵۹ھ ہجری میں اوربقول بعض ۶۱ھ میں ہوئی۔ان کے چہرہ پر داڑھی کاایک بال بھی نہ تھاانصارکہاکرتے تھےکہ ہم چاہتےہیں کہ اپنے مال کے عوض میں قیس کی داڑھی نکلنے کی کوئی تدبیرکرتےمگرباوجوداس کے یہ نہایت حسین تھے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔ابوعمرنے کہاہے کہ ان کا واقعہ سراویل کے متعلق حضرت معاویہ کے یہاں بالکل غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7 )