بن معتب بن مالک بن کعب بن عمروبن سعد بن عوف بن ثقیف ثقفی عروہ بن مسعود کے بھتیجے ہیں ابوعمرنے ان کا نسب اس طرح بیان کیاہے قارب بن عبداللہ بن اسود بن مسعود۔اورابن مندہ نے ان کو صرف قارب تمیمی لکھاہےاوران سبنے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایااللہ رحم کرے(احرام سے باہرہوتےوقت)سرمنڈوانے والوں پر۔حمیدی نے ابن عینیہ سے انھوں نے ابراہیم بن میسرہ سے انھوں نے وہب بن عبداللہ بن قارب یامارب سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے داداسے یہ حدیث روایت کی ہے۔حمیدی کے علاوہ اورلوگ ان کا نام بغیرشک کے قارب کہتےہیں اوریہی صحیح ہے قارب قبیلۂ ثقیف کے سرداروں میں سے تھےمشہورومعروف شخص ہیں جب احلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑے توان کاجھنڈا انھیں کے ہاتھ میں تھااحلاف قبیلہ ثقیف کی ایک شاخ ہے قبیلہ ثقیف کی دوشاخیں ہوگئی ہیں بنی مالک اوراحلاف ہم کتاب لباب میں یہ سب حالات بہ تفصیل لکھ چکے ہیں۔اس واقعہ کے بعدپھریہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں حاضرہوئےتھےہمیں ابوجعفربن سمین نے اپنی سند کے ساتھ یونس بن بکیرسے انھوں نے ابن اسحاق سے روایت کرکے خبردی کہ وہ کہتےتھےابوملیح بن عروہ اور قارب بن اسود دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے قبیلہ ثقیف کاوفد آنے سے پہلے جب کہ انھوں نے عروہ کوقتل کیاتھایہ دونوں قبیلہ ثقیف سے قطع تعلق کرکے اس ارادہ سے آئے تھے کہ اب کبھی اس بات میں ان سے متفق نہ ہوں گے چنانچہ یہ دونوں اسلام لائے ان سے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم جس کو چاہواپنادوست بنالوان دونوں نے کہاکہ ہم اللہ اوراس کے رسول کو اپنادوست بناتے ہیں۔پھرجب قبیلہ ثقیف کے لوگ اسلام لائے اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو اورمغیرہ کو بت خانہ منہدم کرنے کے لیے بھیجاتوابوالملیح بن عروہ بن مسعودنےرسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے والد عروہ پر کچھ قرض ہے اس کو اداکردیجیےحضرت نےفرمایااچھاقارب بن اسود نے کہااسود پربھی کچھ قرض ہے اس کو بھی ادا کر دیجیےعروہ اوراسود دونوں حقیقی بھائی تھےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اسود توبحالت شرک مراہے قارب نےکہایہ تو سچ ہے مگراس کا احسان توایک مسلمان پر ہوگاکیونکہ اس قرض کا مطالبہ تومجھی سے کیاجاتاہےلہذارسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کوحکم دیا کہ ان دونوں کا قرض اسی بت خانہ کے مال سےاداکر دینا۔ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہےاورابوموسیٰ نے ان کاتذکرہ ابن مندہ پراستدراک کرنے کے لیے لکھاہے مگریہ استدراک بے وجہ ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7 )