ابن طریف مرادی ثم العرنی۔ فتح مصر وغیرہ میں شریک تھے انھوں نے نبی ﷺ کی زیارت کی ہے ان سے ابو سالم جیشانی نے رویت کیہے ان کا تذکرہ ابن مندہ نے ابن یونس بن عبدالاعلی سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ثابت بن طریف مرادی ثم العرنی فتح مصر وغیرہ میں شریک تھے اہل عربس ے ہیں ان کا صحابی ہونا ثابت ہے کیوں کہ اہل عرب جب بعد مرتد (٭آںحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرب کے بعض قبیلے مرتد ہوگئے تھے جن سے حضرت ابوبکر و عمر رضیاللہ عنہما نے جہاد کیا تھا) ہو جانے کے پھر مسلمان ہوئے تو ابوبکر و عمر رضیا للہ عنہما نے انھیں جہاد کی ترغیب دی چنانچہ اہل عرب شام اور عراق کی طرف (جہاد کے لئے) گئے جو لوگ شام گئے تھے وہ بعد فتح سام کے مصر کی طرف گئے اور مصر کو فتح کیا ان لوگوں میں بعضے وہ تھے جن کو شڑف صحبت حاصل تھا اور بعضے وہ تھے جو صحابی نہ تھے اگرچہ انھوں نے زمانہ جاہلیت پایا تھا اس لئے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جن لوگوں نے فتوحات میں شرکت کی ہے ان سب نے زمانہ جاہلیت پایا تھا کیوں کہ اخیر عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی ﷺ کی وفات کے تقریبا تیرہ برس بعد تک تھا پس جن لوگوں نے ان دونوں کے زمانے میں جنگ کی وہ نبی ﷺ کی حیات میں کبیر السن تھے واللہ اعلم۔ اسی وجہ سے ابو نعیم نے اس کا حوالہ ابن مندہ پر کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک حکایت کرنے والے نے ابو سعید سے روایت کی ہے کہ یہ صحابی ہیں اور انھوں نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)