ابن عمرو بن بن عبدی بن سواد بن اشجع انصاری۔ بنی نجار میں سے ہیں انصار کے حلیف تھے۔ احد میں شہید ہوئے۔ یہ ابن اسحاق اور زہری وغیرہ کا قول ہے۔ ابن مندہ نے ان کا نسب اسی طرح بیانکیا ہے حالانکہ اس میں خبط ہے کیوں کہ انھوںنے ان کا نسب قبیلہ اشجع سے قرار دیا ہے اور ان کو انصاری بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ بنی نجار سے تھے انصار کے حلیف تھے پس بنی نجار تو خود انصار میں سے ہیں (انصار کا حلیف ہونا کیا معنی) پھر اگر ان کا نسب اشجع میں ہے تو یہ بنی نجار میں نہیں ہوسکتے بنی نجار قبیلہ اشجع کی شاخ نہیں ہے وہ تو خود انصاری ہیں پس اگر وہ ان کا نسب قبیلہ اشجع میں ملا دیتے اور کہتے کہ یہ انصار کے یا بنی نجار کے حلیف ہیں تو ٹھیک ہوتا۔ علاوہ اس کے یہ نسب تو انصار کے نسب کے مشابہ ہے اشجع کا نسب نہیں معلوم ہوتا۔ اور ابو عمر نے کہا ہے کہ ثابت بن عمرو بن عدی بن سواد بن مالک بن غنم بن نجار۔ یہ نسب نجار تک صحیح ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ بقول جمیع علما یہ بدر میں شریک تھے اور احد میں شہید ہوئے مگر ابن اسحاق نے ان کو اہل بدر میں نہیں شمار کیا۔ اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ ثابت بن عمرو اشجعی انصار کے حلیف ہیں بدر میں سریک تھے اور عروہ بن زبیر سے شرکائے بدر میں ثابت بن عمرو بن زید بن عدی بن سواد بن عصتہ کا نام بھی منقول ہے جو انصار کے حلیف تھے اور قبیلہ اشجع سے تھے۔ اس میں بھی اعتراض ہے کیوں کہ انصار کے بہت سے حلیف خود بھی اور ان کے باپ دادا بھی قبیلہ اشجع میں بہت رہے اس وجہ سے ان کی طرف زینت کے ساتھ منسوب ہوگئے مثال اس کی کعب بن عجرہ ہے کہ وہ کی طرف منسوب تھے جیسا کہ ہم ان کے نام میں ذکر کریں گے پھر وہ انصار کے قبلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف منسوب ہوگئے بعض علما ان کو انصاری کہتے ہیں اور بعض لوگ بلوی حلیف انصار کہتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں انصاری ہیں بسبب حلیف ہونے کے اور یہی وجہ ہے جو ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب انصار تک پہنچایا ہے اور پھر بھی ان کو اشجعی لکھا ہے واللہ اعلم۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)