ابن عبداللہ انصاری۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت کی ہے اور آپ کا کام کر دیا کرتے تھے ان کی حدیث محمد بن منکدر نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری جوان جس کا نام ثعلبہ بن عبدالرحمن تھا اسلام لایا اور وہ نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا (ایک روز) رسول خدا ﷺ نے اس کو کسی انصاری مرد کے دروازے پر کسی کام کے لئے بھیجا (چنانچہ وہ گیا) اس نے (وہاں) اس انصاری کی بی بی کو نہاتے ہوئے دیکھا اور کئی بار اس کی طرف دیکھا بعد اس کے اس کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں رسول خدا ﷺ پر وحی نہ نازل ہو جائے یہ خیال آتے ہی وہ وہاں سے چل دیا اور مکہ اور مدینہ کے درمیان میں جو پہاڑ تھے ان میں گھس گیا۔ رسول خدا ﷺ نے اسے چالیس دن تک نہیں دیکھا یہ وہی زمانہ تھا جس زمانے میں کافروں نے کہا تھا کہ محمد کو ان کے پروردگار نے چھوڑ دیا اور ان سے ناراض ہوگیا۔ چالیس دن کے بعد جبریل رسول خدا ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آپ کا پروردگار آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کی امت میں سے وہ شخص جو بھاگ گیا ہے ان پہاڑوں میں ہے وہ میری دوزخ سے میری پناہ مانگتا ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر اور اے سلمان تم جائو اور ثعلبہ ن عبدالرحمن کو میرے پاس لے آئو چنانچہ یہ دونوں گئے ان کو ایک چرواہا مدینہ کے چرواہوں میں سے ملا جس کا نام ذفافہ تھا اس سے حضرت عمر نے کہا کہ اے ذفافہ تجھے کچھ اس جوان کی حالت بھیمعلوم ہے جو ان پہاڑوں میں رہتا ہے اس نے کہا شاید تم اس شخص کو پوچھ رہے ہو جو جہنم کے خوف سے بھاگا ہے حضرت عمر نے پوچھا کہ تجھے کیوں کر یہ معلوم ہوا کہ اس نے کہا کہ نصف شب کو وہ ان پہاڑوںکے درماین میں اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوئے نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار کاش تو اور روحوں کے ساتھ میرے روحکو بھی قبض کر لیتا اور اور جسموں کے ساتھ میرے جسم کو بھی فنا کر دیتا بالاخر دفافہ انھیں لے گی اور ان دونوں نے اس سے ملاقات کی اور اپنے ساتھ نبی ﷺ کے حضور میںلے آئے۔ اس کے بعد وہ بیمار ہوگیا اور نبی ﷺ کی حیات ہی میں مر گیا۔
میں کہتا ہوں کہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا تذکرہ لکھا ہے حالانکہ اس میں ایک اعتراض ہے کیوں کہ اللہ تعالی کا قول ماذعک ربک وما قلا اول اسلام (٭ترجمہ۔ اے نبی تم کو تمہارے پروردگار نے نہ چھوڑا ہے نہ ناخوش ہے) اور ابتدائے وحی میں نازل ہوا ہے جب نبی ﷺ مکہ میں تھے یہ بہت صحیح ہے اور یہ قصہ ہجرت کے بعد کا ہے پس یہد ونوں باتیں ایک ساتھ کیوں کر جمع ہوسکتی ہیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)