ابن ابی مالک قرظی۔ کنیت ان کی ابو یحیی ہے۔ قبیلہ بن ی قریضہ کے امام تھے رسول خدا ﷺ کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ محمد بن سعد نے کہا ہے کہ (ان ثعلبہ کے والد) ابو مالک یمن سے آئے تھے وہ یہودی تھے انھوں نے بنی قریضہ کی ایک عورت سے نکاح کیا لہذا یہ ان کی طرف منسوب ہوگئے حالانکہ یہ خود قبیلہ کندہ کے ہیں۔ یحیی بن معین نے کہا ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے۔ اور مصعب زبیری نے کہا ہے کہ ثعلب بن ابی مالک کی عمرو ہی ہے جو عطیہ قرظی کی عمر ہے اور ان کا قصہ بھی ان کے قصہ کے مثل (٭ان کا قصہ یہ ہے کہ بنی قریضہ کے قیدی جب گرفتار ہو کر آئے تو جو لوگ بالغ ہوچکے تھے وہ قتل کر دیئے جاتے تھے اور نابالغ چھوڑ دیے جاتے تھے یہ بھی چونکہ نابالغ تھے اس لئے قتل نہیں کئے گئے) ہے یہ دونوں چھوڑ دیئے گئے تھے قتل نہیں کئے گئے۔ محمد بن اسحاق نے ابو مالک بن ثعلبہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ کے حضور میں مہزور کے لوگ آئے تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ جب پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے تو اوپر والے باغ کا مالک نہ روکے۔ ہمیں ابو الفرج بن ابی الرجاء بن سعد نے اپنی سند سے ابوبکر یعنی احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد سے کتابتہ خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے یعقوب بن حمید نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے اسحاق بن ابراہیم نے صفوان بن سلیمس ے انھوں نے ثعلبہ بن ابی مالک سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے نبی ﷺ نے فرمایا نہ خود نقصان اٹھایا جائے نہ کسی دوسرے کو پہنچایا جائے ور بے شک نبی ﷺ نے سیل (بہیا) سے باغوں کے سینچنے کی بابت بلندی والے باغوں اور نشیب والے باغوں کے حق میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اوپر والا باغ سیچ لیا جائے اور ٹخنوں تک (٭کچھ باغ بلندی پر تھے اور کچھ پستی میں تھے پانی جب بہہ کر آتا تو پہلے بلندی والے باغوں میں پہنچتا باغ کے مالک اس پانی کو اپنے ہی باغ میں روک لیتے پستی والے باغوں یں نہ جانے دیتے حضرت نے اس سے منع کر دیا کہ یہ بے انصافی ہے جب اس قدر پای باغ میں بھر جائے کہ ٹخنوں تک پہنچنے لگے تو پھر اس کو روکنا نہ چاہئے) پانی بھر لیا جائے بعد اس کے نیچے والے باغ کے لئے پانی چھوڑ دیا جائے اور ایسا ہی اس میں بھی کیا جائے یہاں تک کہ تمام باغوں میں پانی پہنچ جائے یا یہ کہ پانی ختم ہو جائے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے مہزور ایک نالے کا نام ہے جس میں پانی رہتا تھا باغ والوں نے اس کی بابت جھگڑا کیا تھا تو رسول خدا ﷺ نے یہ فیصلہ کیا۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)