(سیدنا) ثعلبہ (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) ثعلبہ (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن حاطب بن عمرو بن عبد بن امیہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس انصاری ہیں اوسی ہیں۔ بدر میں شریک تھے یہ محمد بن اسحاق اور موسی بن عقبہ کا قول ہے۔ یہی میں جنھوں نے نبی ﷺ سے اس کی درخوات کی تھی کہ آپ ان کے واسطے دعا کریں تاکہ اللہ تعالی انھیں مال عنایت فرمائے۔
ہم سے ابو العباس احمد بن عثمان بن ابی علی بن مہدی زرزاری نے اجازۃ بیان کیا انھوںنے کہا ہمیں ابو عبد اللہ حسن ابن عبداللہ رسمی نے اور رئیس مسعود بن حسن بن قاسم بن فضل ثقفی اصفہانی نے خبر دی یہ دونوں کہتے تھے ہمیں احمد بن خلف شیرازی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے استاد ابو احاق احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن حامد وزان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن محمد بن ابراہیم سمرقندی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن نصر نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے ابو ازہر احمد بن ازہر نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھے مروان بن محمد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن شعیب نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں معاذ بن رفاعہ نے علی بن یزید سے انھوںنے قاسم یعنی ابو عبدالرحمن نے انھوںنے ابو امامہ باہلی سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ثعلبہ بن حاطب انصاری رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالی مجھے مال دے آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں میری حالت کی اقتدا پسند نہیں ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں چاہتا کہ سونے اور چاندی کے پہاڑ میرے ساتھ رہا کریں تو بے شک رہتے (اس وقت ثعلبہ نے سکوت کر لیا)پھر چند روز کے بعد آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ اللہ سے دعا فرمایئے کہ مجھے مال دے قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر اللہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق دار کا حق ادا کروں گا پس رسول خدا ﷺ نے فرمایاکہ اے اللہ ثعلبہ کو مال دے اے اللہ ثعلبہ کے مال دے راوی کہتا ہے کہ ثعلبہ نے کچھ بکریاں پالی تھیں وہ ایسی بڑھیں جس طرح کیڑے بڑھتے ہیں پس ثعلبہ ظہر اور عصر کی نماز رسول خدا ﷺ کے ہمراہ پڑھتے تھے اور باقی نمازیں وہ اپنی بکریوں (کے گلہ) میں پڑھنے لگے پھر ان بکریوں میں اور بھی ترقی ہوئی تو انھوں نے ظہر اور عصر کی نماز میں بھی آنا چھوڑ دیا اور صرف جمعہ کی نماز میں آنے لگے پھر ان بکریوں میں اور بھی ترقی ہوئی تو انھوںنے جمعہ کی نماز بھی چھوڑ دی جمعہ اور جماعت کی شرکت بالکل ترک کر دی جب جمعہ کا دن آتا تو وہ باہر نکل کر لوگوں سے حالات پوچھا کرتے تھے ایکدن رسول خدا ﷺ نے انھیں یاد کیا اور پوچھا کہ ثعلبہ کا کیا حال ہے لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ثعلبہ نے بکریاں پالی ہیں جو جنگل میں نہیں سماتیں (انھیں میں مشغول رہے ہیں) رسول خدا ﷺ نے فرمایا ثعلبہ کیخرابی ثعلبہ کی خرابی ثعلبہ کی خرابی اسی اثنا میں الہ تعالی نے آیت صدقہ نازل فرمائی تو رسول خدا ﷺ نے ایک شخص کو بنی سلیمس ے اور ایکشخص کو بنی جہینہ سے مقرر فرمایا اور انھیں صدقے کے جانوروں کی عمریں لکھ دیں کہ وہ کس کس عمر کے لئے جائیں اور ان دونوں سے کہا کہ تم ثعلبہ بن حاطب کے پاس جائو اور بنی سلیم کے ایک شخص کے پاس جائو اور ان دونوں سے صدقہ لے لو چنانچہ وہ دونوں نکلے اور ثعلبہ کے پاس گئے ان سے صدقہ مانگا او رسول خدا ﷺ کی تحریر انھیں پڑھائی ثعلبہ نے کہا کہ یہ تو جزیہ ہے یہ تو جزیہ کی بہن ہے اچھا تم لوگ جائو جب تم فارغ ہونا اس وقت میرے پاس آنا چنانچہ وہ دونوں چلے گئے بنی سلیم کے شخص نے جب ان دونوں کے آنے کیخبر سنی تو اس نے اپنے اونٹوں میں سے نہایت عمدہ عمدہ اونٹ چھانٹ کر صدقہ کے لئے علیحدہکر لئے اور ان اونٹوںکے ساتھ ان کا استقبال کیا جب ان دونوں نے ان اونٹوںکو دیکھا تو کہا کہ عمدہ عمدہ اونٹ چھانٹ کر دینا تم پر ضروری نہیں ہے اس سلمیںے کہا کہ تم انھیں لے لو میں نے اپنی کوشی سے دیئے ہیں اس کے بعد وہ دونوں اور لوگوںکے پاس گئے اور صدقہ وصول کیا بعد اس کے پھر ثعلبہ کے پاس آئے ثعلبہ نے کہا کہ مجھے اپنی تحریر دکھائو (ان دونوں نے وہ تحریر دکھا دی اس کو پڑھ کر ثعلبہ نے (پھر وہی) کہا کہ یہ تو جزیہ ہے یہ جزیہ کی بہن ہے تم (اس وقت) چلے جائو ذرا میں اپنی رائے دیکھ لوں چنانچہ وہ دونوں واپس آئے جب انھیں رسول خدا ﷺ نے دیکھا تو قبل اس کے کہ یہد ونوں رسول خدا ﷺ سے کلام کریں آپ نے فرمایا کہ ثعلبہ کیخرابی پھر آپ نے بنی سلیم کے س شخص کے لئے دعائے خیر فرمائی بعد اس کے ان دونوں نے ثعلبہ کی وہ حرکت بیان کی پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی ومنہم من عابد اللہ لئن اتا نامن فضلہ الی قولہ و بما کانوا یکذبون (٭پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ ان میں بعض لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ وہ ہمیں اپنا فضل دے گا تو ہم ضرور ضرور صدقہ دیں گے اور نیکیوں میں ہوں گے مگر جب اللہ نے انھیں صاپنا فضل دیا تو انھوں نے بخل کیا اور منہ ھیر کر ہٹ گئے پس اسی خلف وعدہ کی وجہس ے اور جھوٹ بولنے کے سبب سے ان کے دل میں نفاق آگیا جو قیامت تک رہے گا)اس وقت رسول خدا ﷺ کے اپس ثعلبہ کے عزیزوں میں سے ایکشخص بیٹھا ہوا تھا اس نے اس آیتکو سنا اور اس نے جاکر ثعلبہ سے بیان کیا کہ اے ثعلبہ تیری خرابی ہواللہ عزوجل نے تیرے بارے میں ایسا ایسا حکم نازل فرمایا پس ثعلبہ نبی ﷺ کے حضور میں آئے اور آپ سے درخواست کی کہ میرا صدقہ قبول کر لیجئے حضرت نے فرمایا کہ الہ بزرگ برتر نے مجھے تمہارے صدقہ کے قبول کرنے سے منع کر دیا ہے (یہ سن کر) ثعلبہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگے رسول خدا ھ نے فرمایا کہ یہ خود تمہارا ہی کیا ہوا ہے میں نے تمہیں حکم دیا تھا تم نے نہ مانا پس جب رسول خدا ﷺ نے ان کے صدقے کے لینے سے انکار کر دیا تو وہ اپنے گھر لوٹ گئے رسول کدا ﷺ کی وفات ہوگئی اور آپنے ان سے کچھ نہیں لیا پھر یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کہ وہ خلیفہ کئے گئے آئے اور کہا کہ آپ میرا تقرب رسول خدا ﷺ کے حضور میں اور میرا مرتبہ انصار میں جانتے ہیں آپ میرا صدقہ لے لیجئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول خدا ﷺ نے تم سے صدقہ نہیںلیا اور میں لے لوں یہ نہیں ہوسکتا پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور انھوںنے ان کا صدقہ نہیں قبول کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انھوںنے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ میرا صدقہ لے لیجئے حضرت عمر رضی اللہ عنہنے کہا کہ تمہارا صدقہ رسول خدا ﷺ نے قبول نہیں کیا اور حصت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قبول نہیں کیا اور میں قبول کر لوں (یہ نہیں ہوسکتا) پس حضرت مر کی وفات ہوگئی اور انھوں نے ان کا صدقہ قبول نہیں کیا۔ پھر حضرت عچمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ انکے پاس گئے اور ان سے درخوات کی کہ ان کا صدقہ قبول کر لیں انھوںنے کہا کہ رسول خدا ﷺ نیتمہارا صدقہقبول نہیں کیا ثعلبہ کیوفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیخلافت میں ہوئی۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے اور ان کا نسب بھی سب نے ایسا ہی بیان کیا ہے جیسا ہم نے بیان کیا اور ان لوگوںنے یہ بھی کہا ہے کہ یہ بدر میں شریکت ھے۔ اور ابن کلبی نے کہاہے کہ ثعلبہ بن حاطب بن عمرو بن عبید بن امیہ یعنی بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف انصاری قبیلہ اوس سے ہیں جنگ بدر میںشریکت ھے اور احد میں شہی ہوئے پس اگر یہ وہی ہیں جنکا حال اس تذکرہ میں بیان ہوا تو یقینا یا ابن کلبیکو انکے شہادت کے بیانکرنے میں وہمہوگیا یا یہ قصہ صحیح (٭جب اس رویتکا صحیح ہونا مصنف کے نزدیک بھی قابل وثوق نہیں ہے تو حضرت ثعلبہ کو کوئی الزام عائد نہیں ہوسکتا) نہیں ہے یا یہ کوئی اور ہیں اور وہ وہی ہیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)