(سیدنا) ثمامہ (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) ثمامہ (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن اثال بن نعمان بن مسلمہ بن عبد بن ثعلبہ بن یربوع بن ثعلبہ بن دول بن حنیفہ بن طیم۔ حنیفہ بھائی ہیں عجل کے۔ ہمیں ابو جعفر یعنی عبید اللہ بن حمد بن علی نے اپنی سند سے یونس بن بکیر تک خبر دی وہ ابن اسحاق سے وہ سعید مقری سے وہ ابوہریرہ سے روی ہیں کہ انھوں نے کہا ثمامہ بن اثال حنفی کے اسلام کا واقعہ اس طرح پر ہے کہ رسول خدا ﷺ نے دعا مانگی تھی جب یہ برے ارادہ سے آپ کے سامنے آئے کہ اللہ آپ کو ان پر قابو دے یہ مشرک تھے اور بارادہ قتل آنحضرت ﷺ یہ حضرت کے سامنے آئے تھے (اتفاق سے چند روز کے بعد) ثمامہ اسی حالت شرک میں عمرہ کرنے کے لئے نکلے یہاں تک کہ (اثنائے سفر میں) مدینہ پہنچے اور وہاں سبہوت ہوگئے یہاں تک کہ گرفتار کر لئے گئے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے حضور میں لائے گئے آپ نے حکم دیا کہ یہ مسجد کے کسی ستون سے باندھ دئے جائیں پھر رسول خدا ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے ثمام تمہارا کیا حال ہے دیکھو اللہ نے مجھے تم پر قابو دے دیا یا نہیں ثمامہ نے کہا ہاں اے محمد اگر تم (مجھے) قتل کر دو تو (ناحق نہ قتل کرو گے بلکہ) ایک خونی کو قتل کرو گے اور اگر تم معاف کر دو تو تم نے ایک شکر گذار کو معا ف کیا اور اگر تم کچھ مال مانگو تو دیا جائے گا بعد اس کے رسول خدا ﷺ لوٹ آئے اور انھیں چھوڑ دیا یہاں تک کہ دوسرا دن ہوا تو پھر رسول خدا ﷺ ان کے طرف تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے ثمام تمہارا کیا حال ہے انھوں نے عرض کیا کہ اچھا حال ہے اے محمد اگر تم (مجھے) قتل کر دو تو ایک خونی کو قتل کرو گے اور اگر معاف کر دو تو ایک شکر گذار کو معاف کرو گے اور اگر تم مال مانگو تو دیا جائے گا پھر رسول خدا ﷺ لوٹ آئے ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ہم چند مسکینوں نے باہم یہ گفتگو کی کہ ہم ثمامہ کو قتل کر کے کیا کریں گے خدا کی قسم اس کے فربہ اونٹوںکا گوشت جو اس کے چھوڑ دینے کے بدلہ میں ملے گا ہمیں اس کے قتل کر دینے سے بہتر معلوم ہوتا ہے چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو رسول خدا ﷺ پھر ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اے ثمام تمہارا کیا حال ہے انھوںنے عرض کیا کہ اچھا حال ہے اے محمد تم اگر (مجھے) قتل کر دو تو ایک خونی کو قتل کرو گے اور اگر معاف کر دو تو ایک شکر گذار کو معاف کرو گے اور اگر کچھ مال مانگو تو دیا جائے گا پس رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو اے ثمام میں نے تمہیں معاف کر دیا پس ثمامہ وہاں سے گئے اور مدینہ کے کسی باغ میں جا کے غسل کیا اور خود بھی پاک ہوئے اور اپنے کپڑوں کو پاک کیا بعد اس کے رسول خدا ﷺ کے حضور میں آئے آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور کہا کہ اے محمد بے شک آپ کی یہ کیفیت تھی کہ کسیکا منہ مجھے آپ کے منہس ے زیادہ ناخوش نہ معلوم ہوتا تھ اور نہ کوئی دین مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناگوار تھا اور نہ کوئی شہر مجھے آپ کے شہر سے زیادہ بڑا معلوم ہوتا تھا مگر اب یہ حالتہے ہ کسی کا منہ مجھے آپ کے منہ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور نہ کوئی دین مجھے آپکے دینس ے زیادہ محبوب ہے اور نہ کوئی شہر مجھے آپ کے شہر سے زیادہ محبوب ے میں اب شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں یارسول اللہ میں عمرہ کرنے کی نیت سے نکلا تھا اور میں اس وقت اپنی قوم کے دین پر تھا مجھے آپ کے اصحاب نے عمرہ میں گرفتار کر لیا پس اب مجھے عمرہ کے لئے بھیج دیجئے اللہ آپ پر رحمت نازل فرمائے رسول خدا ﷺ نے انھیں عمرہ کے لئے بھیج دیا اور انھیں طریقہ تعلیم فرمایا چنانچہ یہ عمرہ کے لئے گئے جب مکہ پہنچے اور قریس نے سنا کہ یہ محمد (ﷺ) کے مذہب کی باتیں کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ ثمامہ بے دین ہوگیا ثمامہ نے کہا کہ خدا کی قسم یں بے دین نہیں ہوں بلکہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور میں نے محمد (ﷺ) کی تصدیق کر لی ہے اور میں ان پر ایمان لے آیا ہوں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں ثمامہ کی جان ہے کہ اب یمن سے تمہیں ایک دانہ بھی نہ آئے گا اور یمن اہل مکہکا تھا یہاں تک کہ رسول خدا ﷺ اس کی اجازت دیں بعد اس کے یہ اپنے شہر لوٹ گئے اور غلہ مکہ جانے سے روک دیا قریش کو سخت مصیبت پیش آئی اور انھوں نے رسول خدا ﷺ کو خط لکھا اور اپنی قرابتکا واسطہ دلایا کہ آپ ثمامہ کو لکھ دیجئے کہ غلہ کو نہ روکیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے لکھ دیا۔ پھر جب مسیلمہ (کذاب) کا ظہور ہوا اور اس کی بت بڑھ گئی تو رسول خدا ﷺ نے فرات بن حیاب عجلی کو ثمامہ کے پاس بھیجا کہ مسیلمہ سے جنگ کریں۔ محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب اہل یمامہ سلامسے مرتد ہوئے س وقت ثمامہ مرتد نہیں ہوئے یہ اور ان کی قوم کے جو لوگ ان کے تابع تھے اسلام پر قائم رہے اور یمامہ ہی میں مقیم رہے لوگوںکو مسیلمہ (کذاب) کی پریوی اور س کی تصدیق سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ اے لوگوں اپنے کو ایسی تاریک چیز سے بچائو جس میں بالکل نور نہیں ہے اور بے شک وہ بدبختی کی بات ہے اے بنی حنیفہ اس کو اللہ نے ان لوگوںکے لئے مقدر کر دیا ہ جو اس پر عمل کریں گے جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے لئے یہ بلا ہے مگر جب لوگوں نے ان کی بات نہ مانی اور سب کے سب مسیلمہ کی پیروی پر متفق ہوگئے تو انھوں نے ن سے جدا ہو جانے کا اردہ کر لیا اتفاق سے علاء بن حضرمی کا اور ان لوگوںکاجو ان کے ساتھ ہے اور گذر ہوا یہ لوگ بحرین جارہے تھے وہاں حطم (نامی ایک کافر) تھا اور اس کے ساتھ قبیلہ ربیعہ کے کچھ مرتد تھے جب یہ خبر ثمامہ کو معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے مسلمان ساتھیوں سے کہا کہ خدا کی قسم میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کے ساتھ رہوں اس حال میں کہ انھوں نے یہ بدعت نکالی ہے اللہ ان کو ایسی بلا میں مبتلا کرے گا کہ یہ اس میں نہ کھڑے ہوسکیں گے نہ بیٹھ کیں گے اور میں مناسب نہیں جانتا کہ ان لوگوں سے یعنی ابن حضرمی اور ان کے اصحاب سے جو مسلمان ہیں پیچھے رہجاون اور بے شک ہم ان کے ارادہ سے واقف ہوچکے ہیں اور وہ (اتفاق سے) ہمری طرف آبھی گئے ہیں لہذا اب میں ان کے ساتھ ہو جانا ہی مناسب سمجھتا ہوں پس جو شخص تم میںسے چاہے چلے چنانچہ وہ علاء کی مدد کے لئے نکلے اور ان کے ہمراہ ان کے مسلمان ساتھی بھی تھے یہ بات دشمن کے کمزور کرنے میں زیادہ موثر ہوئی جب انھیں معلوم ہوا کہ بنی حنیفہ علاء کی مدد کے لئے گئے۔ ثمامہ علاء کے ساتھ حطم کی جنگ میں شریک رہے مشرکوں کو شکست ہوئی اور قتل کئے گئے اور علاء نے مال غنیمت تقسیم کیا اور کچھ لوگوں کو انعام بھی دیا ایک شخص کو حطم کی ایک چادر دی جس پر حطم ایک مسلمان کے سامنے فخر کرتا تھا ثمامہ نے وہ چادر اس مسلمان سے مول لی پھر جب اس فتحکے بعد ثمامہ لوٹے تو بنی قیس بن ثعلبہ نے جو حطم کیہم قوم تھے وہ چادر ثمامہ کے جسم پر دیکھی اور کہا کہ تمہیں نے حطم کو قتل کیا ہے ثمامہ نے کہا میں نے حطم کو قتل نہیں کیا بلکہ یہ چادر میں نیمال غنیمت سے مول لے لی ہے لیکن ان لوگوں نے ( نہ مانا اور) ثمامہ کو قتل کر دیا ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)