حضرت سیدناشاہ امیرابوالعلی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت سیدناشاہ امیرابوالعلی(رحمتہ اللہ علیہ) (تذکرہ / سوانح)
حضرت سیدناشاہ امیرابوالعلی قطب دوراں تھے۔
خاندانی حالات؛
آپ کےداداحضرت خواجہ امیرعبدالسلام مع اہل وعیال کےسمرقندسےہجرت کرکےہندوستان آئےاورنریلہ میں جودہلی سےکچھ دورواقع ہے۔قیام فرمایا،حرمین شریف کی زیارت کےقصد سے وہ نریلہ سےمع متعلقین فتح پورسیکری آئے،یہاں سےآگےجاناچاہتےتھےکہ شہنشاہ اکبرنےان سے فتح پورسیکری میں رہنےکی درخواست کی،وہ راضی ہوگئےاورفتح پورسیکری میں رہنےلگے۔کچھ عرصے فتح پورسیکری میں قیام فرماکروہ حج کےلئےروانہ ہوگئے،وہیں ان کا وصال ہوا۔
والد ماجد:
آپ کےپدربزرگوارکانام امیرابوالوفاہے،بعارضہ دردقولنج ان کا وصال فتح پورسیکری میں ہوااور دہلی میں ان کوسپرد خاک کیاگیا۔۱؎
والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خواجہ محمدفیض المعروف بہ خواجہ فیض کی دخترنیک اخترتھیں۔حضرت خواجہ محمدفیض بردوان میں ناظم کےعہدےپرفائزتھے۔
حسب ونسب:
آپ والدماجدکی طرف سےحسینی اوروالدہ ماجدہ کی طرف سےاحراری ہیں۔
پیدائش:
آپ کی ولادت باسعادت نریلہ میں ۹۹۰ھ میں ہوئی۔۲؎
نام:
آپ کانام نامی اسم گرامی امیرابوالعلی ہے۔
بچپن کےصدمات:
ابھی کم سن ہی تھےکہ آپ کےوالدماجدکاسایہ آپ کےسرسےاٹھ گیا۔آپ اپنےشفیق دادا حضرت امیرعبدالسلام کی شفقت سےبھی محروم ہوئے۔آپ کےداداحرمین شریف کی زیارت کےلئےگئے تھے،وہیں ان کاوصال ہوا۔
تعلیم وتربیت:
آپ کےدادانےبیت اللہ شریف جاتے وقت آپ کوحضرت خواجہ محمدفیض کےسپردفرمایاتھا۔ حضرت فیض بردوان میں ناظم تھے۔وہ آپ کواپنےہمراہ بردوان لےگئے،انہیں کی نگرانی میں آپ کی تعلیم وتربیت ہوئی۔آپ بہت جلدتحصیل علوم و فنون سےفارغ ہوئے۔جملہ علوم ظاہری و کمالات باطنی میں ماہرہوئے۔فن سپہ گری میں بےمثل ثابت ہوئے۔
ناناکاوصال:
ابھی آپ جملہ علوم و فنون متداولہ سےفارغ ہی ہوئےتھےکہ آپ کےناناحضرت محمدفیض المعروف بہ خواجہ فیضی نےایک مہم میں جام شہادت نوش فرمایا۔
عہدہ نظامت:
آپ کےناناحضرت خواجہ فیضی کےکوئی لڑکانہیں تھا۔راجہ مان سنگھ نےآپ کی یگانگت،مناسبت، لیاقت دیکھ کرآپ کےناناکےعہدےپرآپ کاتقرر کرکےبادشاہ سےپروانہ تقرری حاصل کرلیا۔ اب آپ اپنےناناکےبجائےعہدہ نظامت پرمتمکن ہوئے۔منصب سہ ہزاری ذات و سوارسے ممتاز ہوئے۔
اشارت پربشارت:
ایک شب آپ نےتین بزرگوں کوخواب میں دیکھاکہ فرماتےہیں۔۳؎
"اےسیدابوالعلی!یہ کیاوضع اختیارکی ہے،اس کو قطع کرچھوڑو۔ہماری طرح اختیارکرو،اگرفکر معیشت ہے تو
اَللّٰہُ نُورُالسَّمٰوَاتِ وَالاَرضَ
(اللہ روشن کرنےوالاہے،آسمان اورزمین کو)
کوسمجھو،کوئی خطرہ یا اندیشہ دل میں نہ لاؤ"
اس کےبعدان بزرگوں میں سےایک نےاسترہ لیااورآپ کےسرکےبال تراشے۔
دوسرے بزرگ نےآپ کوکفنی پہنائی اورتیسرے بزرگ نےآپ کےسرپرعمامہ رکھا۔
کایاپلٹ:
دوسرے دن صبح کوآپ نےحجام کوبلاکرسرکےبال ترشوائے۔پیرہن پہنا،دنیاسےاپنےآپ کوبیزار پایا،کسی کام میں آپ کاجی نہیں لگتاتھا۔اب آپ نےعہدہ نظامت سےسبکدوش ہوناچاہا۔ راجہ مان سنگھ نےآپ کا استعفیٰ منظورنہیں کیا۔راجہ مان سنگھ نےآپ سےکہاکہ چونکہ ایک مہم در پیش ہے،اس لئےان کا استعفاءاس کاحفظ ماتقدم وپس وپیش ہے۔راجہ مان سنگھ نےآپ کویہ بھی یقین دلایاکہ اگروہ ترقی چاہتےہیں توترقی بھی ممکن ہے اوراگراضافہ منصب چاہتےہیں تووہ بھی کچھ دشوارنہیں۔
مہم میں شرکت:
آپ راجہ مان سنگھ کا بہت خیال فرماتےتھے،چونکہ وہ آپ ناناکےپرانےرفقاءدوستوں میں سے تھے، آپ امیرلشکر ہوکرجنگ میں شریک ہوئے۔میناپورکےمیدان میں گھمسان کی لڑائی ہوئی،
آپ کی فتح ہوئی۔۴؎
دوسراخواب:
کامیاب وکامران آپ بردوان پہنچے۔بردوان پہنچ کرآپ نےایک بارپھرخواب میں آپ چار بزرگوں کی زیارت سےمشرف ہوئے۔ان چاربزرگوں میں تین بزرگ تووہی تھے،جن کو آپ نے پہلےخواب میں دیکھاتھا،چوتھےبزرگ جن کواس مرتبہ آپ نےدیکھا،پیکرنورتھے۔ان کاچہرہ مبارک آفتاب سےزیادہ روشن اورماہتاب سےزیادہ منورتھا۔ان بزرگوں نےآپ سے فرمایاکہ۔ ۵؎
"اےفرزنددل بند،نوربصربلنداختر،اپناطریقہ آبائی اختیارکرو"۔
آپ ان بزرگوں کےنام جن کو آپ نےپہلےاوردوسرےخواب میں دیکھا۔خاص خاص لوگوں کے علاوہ اورکسی سےظاہرنہیں کرتےتھے،آپ فرماتےتھےکہ۔
"جن کی زیارت بیشترخواب میں حاصل ہوئی۔میں ان سےبےعلم تھا،ہاں دوبارہ جب زیارت سے فیض یاب ومشرف ہواتوآگاہ ہواکہ جن بزرگ کاچہرہ مبارک نورانی،آفتاب سےزیادہ مجلیٰ اور ماہتاب سےزیادہ منورتھا،وہ لاریب جناب رسالت مآب سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم تھےاوروہ تین بزرگ جوخواب اول و دوئم میں تشریف لائے،ان میں سےجن بزرگ نےمیرے سرکےبال تراشےوہ امام الاولیاءحضرت علی کرم اللہ وجہہ تھےاوردوصاحب زادگان حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماشہیدکربلاتھے۔
تبدیلی:
اس خواب کےبعدآپ دنیاسےبہت دل برداشتہ ہوگئے،آپ عہدہ نظامت سےسبک دوش ہونا چاہتے تھےاوردنیاسے کنارہ کش۔
آگرہ کوروانگی:
ابھی آپ بردوان ہی میں تھےکہ شہنشاہ اکبرکےانتقال کی خبرپہنچی۔جہانگیرنےتخت پربیٹھتےہی یہ فرمان جاری کیاکہ سب امراءوناظم دربارمیں حاضر ہوں،تاکہ ان کی قابلیت،لیاقت ووجاہت کا اندازہ ہوسکے۔
آپ تو خودہی بردوان سےجاناچاہتےتھے،اس شاہی فرمان کوتائیدغیبی سمجھااورآگرہ روانہ ہوگئے۔ راستےمیں میسری پڑتاتھا،آپ نےمیسری میں کچھ دن قیام کیا،وہاں ایک بزرگ رہتےتھے،جو حضرت یحییٰ میسری رحمتہ اللہ علیہ کی اولادسےتھےان بزرگ نےآپ کودیکھتےہی فرمایا۔۶؎
"آؤ شاہ اعلیٰ آؤ،جزاک اللہ،یہ تم نےخوب کیاکہ دنیاکوچھوڑدیا۔
الدنیاجیفۃ وطالبھاکلاب
(دنیامردارہےاوراس کےطالب کتے)
پہلےتوجیفہ پرگوشت بھی تھااوراب سوکھی ہڈی باقی ہے"۔
میسری سےروانہ ہوکرآگرہ پہنچے۔شہنشاہ جہانگیرسےملاقات ہوئی۔جہانگیرآپ کےجمال وکمال سے بہت متاثر ہوا۔آپ بلاروک ٹوک شاہی دربارمیں آنےجانےلگے۔
ایک واقعہ:
ایک دن کاواقعہ ہےکہ ساقی نےشہنشاہ جہانگیرکوجام پیش کیا۔جہانگیرنےاپنےہاتھ سےوہ جام آپ کو دیا،آپ نےبہ پاس ادب جام لےتولیا،لیکن وہیں پھینک دیا۔جہانگیرنےدوسراجام آپ کودیا، آپ نےلےکرپھرپہلےکی طرح پھینک یدا۔جہانگیرتاب نہ لاسکا،نشہ کی حالت میں آپ سے مخاطب ہوکرکہنےلگا:
"یہ خودنمائی،یہ بےاعتنائی،اوہ،کیاتم غضب سلطانی سےنہیں ڈرتے"۔
آپ نےشہنشاہ جہانگیرکوجواب دیا۔
"غضب سلطانی سےنہیں ڈرتا،قہرربانی سےڈرتاہوں"۔
ترک دنیا:
آپ اپنےمکان پرتشریف لائے،اپنامال ومتاع تقسیم کردیا،نقدوجنس میں سے اپنےپاس کچھ نہیں رکھا۔جہانگیرنےہرچندآپ کوبلایا،لیکن آپ نہیں گئے۔
شرف زیارت:
اسی دن جب آپ مراقبہ میں تھے،آپ نےدیکھاکہ امام الاولیاءحضرت علی کرم اللہ وجہہ بصورت مثالی تشریف لائے ہیں اورآپ سےفرماتےہیں۔۷؎
"اےفرزندارجمند!کشودکارتمہاراحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے مقدرہے،یہ تساہل اس قدرکیوں ہے،اٹھو،اجمیرجاؤ،دیرنہ لگاؤ،حصہ اپناپاؤ"۔
دربارغریب نوازمیں:
اس فرمان کےپاتےہی آپ نےجوکچھ باقی مال ومتاع آپ کےپاس تھا،اس کو بھی راہ خدامیں لٹادیا، چادراوڑھ کراورسفیدتہہ بندباندھ کراجمیرروانہ ہوئے،دہلی پہنچ کرقطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمتہ اللہ علیہ کی اورحضرت نظام الدین اولیاءرحمتہ اللہ علیہ کےمزارات پر حاضرہوئےاوران بزرگان کےروحانی فیوض سےمستفیدہوئے،دہلی سےاجمیرپہنچے۔خواجہ غریب نواز کےمزارمبارک پرحاضرہوئے،حضرت خواجہ غریب نوازبصورت مثالی آپ سے مخاطب ہوئے۔آپ کوسامنےبٹھاکرآپ کوتوجہ عینی فرمائی۔
ایک دن کا واقعہ ہےکہ آپ مزارپرانوارکاطواف کررہےتھےکہ حضرت خواجہ غریب نواز بصورت مثالی جلوہ گرہوئےاورآپ کوایک سرخ رنگ کی گولی جو تسبیح کےدانےکےبرابرتھی،عطا فرمائی۔وہ گولی کھاتےہی آپ کاقلب روشن ہوا۔آپ کاکام پوراہوا۔خواجہ غریب نوازنےآپ کو آگرہ واپس جانے کی تاکیدفرمائی۔آپ نےبیعت کی درخواست کی،خواجہ غریب نواز نے فرمایا۔
"تمہارےچچاامیرعبداللہ ماشاءاللہ عبادت گزارموجود ہیں،انہیں سےبیعت مناسب اوران ہی کی صاحب زادی سے مناکحت واجب ہے"۔
بیعت و خلافت:
حسب فرمان خواجہ غریب نوازآپ حضرت امیرعبداللہ سےبیعت ہوئے،آپ کے پیر و مرشد حضرت امیرعبداللہ نےاپنےہاتھ سے انگوٹھی اتارکرآپ کوپہنادی،بعدازاں آپ کےپیرومرشد نےآپ کوخرقہ خلافت سے سرفرازفرمایا۔
ازواج واولاد:
خواجہ غریب نوازکےحکم کےمطابق آپ نےاپنےچچااورپیرومرشدحضرت امیرعبداللہ کی صاحب زادی سے شادی کی،آپ کے دونوں لڑکے،حضرت امیرفیض اللہ اورحضرت امیرنورالعلیٰ زہد، متقی و پرہیزگاراورصاحب مقامات عالیہ تھے۔
وفات:
آپ ۹صفر۱۰۶۱ھ کوجواررحمت میں داخل ہوئے۔مزارفیض آثارآگرہ میں مرجع خاص و عام ہے، بوقت وفات آپ کی عمر۷۱سال کی تھی۔۸؎
خلفاء:
آپ کی وفات کےبعدآپ کےچھوٹےصاحب زادےحضرت امیرنورالعلیٰ آپ کےسجادہ نشین ہوئے۔
آپ کےمقتدرخلفاء حسب ذیل ہیں۔
آپ کےبڑے صاحب زادےحضرت امیرفیض اللہ اورآپ کےچھوٹے صاحب زادے حضرت امیر نورالعلیٰ۔
حضرت خواجہ محمدی عرف خواجہ فولاد،حضرت ملاولی محمد،حضرت لاڈ خاں،حضرت میر سید کالپوری، حضرت سیددوست محمدبرہان پوری۔
سیرت مقدس:
آپ صاحب نسبت اورصاحب کرامت بزرگ تھے۔عبادت،ریاضات،مجاہدات،ترک و تجرید، صبروتحمل،فقروفاقہ،عفودرگزر،قناعت و توکل میں یگانہ روزگارتھے۔سخاوت،عطاوبخشش کےلئے مشہورتھے۔کمالات صوی سےآراستہ تھے۔علم ظاہروباطن میں دستگاہ حاصل تھی۔"رسالہ فناوبقا" آپ کی علمی یادگارہے۔
تعلیمات:
آپ کی تعلیمات تصوف کابیش بہاخزانہ ہیں۔
فنافی الافعال:
"سالک کااپنےاختیارسے،تمام عالم کےاختیارسےباہرآناہےاوراس سےغرض یہ ہے کہ ایسےتمام حرکات وسکنات وافعال کہ جن کووہ اس سےپہلےاپنےاوردوسروں کی طرف نسبت کرتاتھااوران کو اپنی طرف سےاورنیزدوسروں کی طرف سےجانتاتھا،ان سب کو وہ حق کی طرف نسبت کرےاور سب کوحق تعالیٰ کی طرف سےجانےاوراپنےتمام افعال کوحق کی طرف ایسےخیال کرے،جس طرح کنجی کی حرکت کوہاتھ کےساتھ نسبت ہےاورمردہ کی جنبش کوغسل دینےوالےکی کےہاتھ کےساتھ نسبت ہے"۔
"کسی شےاورکسی چیزکوکسی غیرحق کی طرف نسبت نہ کرےکہ صوفیہ عالیہ کےگروہ کےنزدیک اس کانام بھی شرک ہے"۔
فنافی الصفات:
آپ فرماتےہیں کہ:۹؎
"فنافی الصفات سےمرادیہ ہے کہ سالک اپنےتمام صفات کونیزدوسروں کی تمام صفات کو صفات حق جانےاوراپنی ہرصفت اوردوسروں کی ہرصفت کو کہ جس سےمرادعلم اورارادت اورمشیت اور قدرت اورسمع اورکلام وغیرہ ہے،جس طرح اسےپہلےاپنی طرف اوردوسروں کی طرف نسبت کرتا تھا،اپنی ملکیت اوردوسروں کی ملکیت جانتاتھا،سب کوحق کی طرف نسبت کرےاورحق کی صفات جانے۔پھرکبھی اپنی طرف ونیزدوسروں کی طرف نسبت نہ کرے،کیوں کہ یہ حالت بھی اس طائفہ کےنزدیک شرک عظیم ہے"۔
فنافی الذات:
آپ فرماتےہیں کہ:۱۰؎
فنافی الذات سےمرادیہ ہے کہ سالک اپنی ذات اورتمام عالم کی ذات کوذات حق جانےاور دیکھے۔ اس سے پہلےجس طرح کہ وہ اپنی ذات اورعالم کو عالم جانتاتھا۔اس مرتبہ پر پہنچ کرتحقیقی طورپر جانے اورنظرکرےکہ وہ سب حق ہےاوریقین سمجھےاورخیال کرےکہ وہ حضرت حق تعالیٰ جل شانہ نےمرتبہ اطلاق سےنزول فرماکران مختلف صورتوں میں اور انواع انواع شکلوں میں ظہور فرمایاہے،وہی وہ ہےاوراس کاغیرموجودنہیں"۔
"اسی وجہ سےرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےفرمایاہے۔
حدیث:من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
کہ جوشخص اپنی حقیقت کواس طرح پہچانےکہ میں،میں نہیں ہوں،بلکہ حق ہےجواس صورت سے ظاہرہواہے،پس ایسا شخص اپنےپروردگارکوپہچان لیتاہےاوردوسری جگہ فرمایاہے۔
عرفت ربی بربی
اس سے غرض یہ ہے کہ جب تک میں اپنےآپ کونہیں جانتاتھا،میں نےحق کو نہیں پہچاناتھا اور جب میں نےاپنےآپ کوفناحق جانامیں اپنی ہستی سےالگ ہوگیا،اس وقت میں نے حق کو حق جانا۔
"اورجب توخودفانی ہوجائےگا،اس وقت خداکاجلوہ تجھےنظرآئے گالیکن اس مرتبہ عرفان اور اس درجہ فناکےلئے ایک خاص ترتیب ہے۔۔۔اور وہ ترتیب یہ ہے:
اول:سالک کو چاہیےکہ وہ تمام عالم کو ایک آئینہ فرض کرےاورانوارجمال حق کو ہمیشہ آئینےمیں دیکھتارہےاوراس نسبت میں ایسامنہمک ومقیدہوجائے کہ یہ تصور کسی لحظہ و لمحہ دل سےدوراورآنکھ سےاوجھل نہ ہو۔۔۔
"بعدہ سالک کو چاہیےکہ اس مرتبےسےترقی کرکےمرتبہ اعلیٰ پرپہنچےاو رتمام عالم کوحق دیکھے۔۔۔
"سالک کو چاہیے کہ وہ اس کے بعد اورترقی کرےاوراس سےزیادہ اعلیٰ مرتبہ پر پہنچےاوراپنےآپ کو تمام باقی حجابات سےدوررکھ کراپنےوجود کی نفی کرےاوروجود حق کےاثبات میں خاص کوشش کرےاوراس سے غرض یہ ہے کہ چشم ظاہرکوپوشیدہ کرکےیہ خیال کرےکہ جس سے خود کومیں جانتاتھا،وہ میں،میں نہیں ہوں،وہ حق ہے،جواس صورت میں ظاہرہواہےاوراس صورت میں اس طرح کامل ہمیشگی و محویت پیداکرےکہ وہ اپنےآپ اورتمام عالم کو قطعی فراموش کرکےمحض ذات حق دیکھےاوراسی کو حق جانےاورمانے۔۔۔
"سالک کوجانناچاہیےکہ باخداہونےکےمعنی اپنی ہستی سےگزرجانےاورنیست ہونےکامطلب یہی ہےکہ اورجملہ طالبان خداکا مقصود ومطلوب یہی ہےونیزتمام فقراء کی انتہااوراس مقام کےکمال پر پہنچ جانافنافی اللہ کاحاصل ہوجانا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ دراصل صوفی ایسےشخص کونہیں کہتےکہ وہ چلہ کشی کرے،خلوتوں میں ریاضتوں میں مشغول رہے،بلکہ صوفی وہ ہےکہ جواپنےآپ کوفنا کردےاورجب صوفی اس مقام پر پہنچتاہےتواس کوان ہرسہ مقولات کےاثرات منکشف ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
اقوال:
۔ قدرولی کوئی نہیں جانتا،البتہ ولی اپنی قدرآپ ہی جانتاہے۔
۔ اہل دنیاپست ہمت،بےعقل،نادان،انجان،زندگی،ان کی زرومال،تسبیح،ان کی دولت، ثروت،جاہ وجلال،دنیا،مقام عبرت و ذلت،دنیاشیطان لعین کی میراث وملکیت قابل نفرت،دنیا دار،مکار،روپےپیسےکی ذکروفکرمیں مستغرق و غلطاں وپچاں،فقرا،دیدارالٰہی میں متجسس وپریشان۔
۔ انسان کوچاہیےکہ اپنی بہتری وبھلائی کو دوسرےکےمقابلےمیں ترجیح نہ دے۔
۔ مشکلات کاحل تقویٰ ہے۔
۔ زندگی کامقصد عبادت الٰہی ہے،یہی دنیاکی کمائی ہے۔
۔ درویشی بادشاہی سےبدرجہابہترگرفتاری خلق مانع و مزاحم نہ ہو۔
۔ صوفی وہ نہیں ہےجوچلہ کشی کرے،خلوت میں بیٹھ کرریاضت و مشقت اختیارکرے بلکہ صوفی وہ ہےکہ خود باقی نہ رہے۔
اورادو وظائف:
آپ فرماتےہیں کہ قلب کی صفائی کےلئےذکر:"لاالٰہ الااللّٰہ"مفیدہے۔
آپ فرماتےہیں کہ آگاہی دوام بھی ضروری ہے۔۱۱؎
آپ فرماتےہیں کہ مراقبےکےفوائد بہت ہیں۔
کرامات:
ایک دن آپ اپنی خانقاہ میں رونق افروزتھےکہ یکایک آپ نےحضرت امیرنورالعلاءسےفرمایاکہ "کچھ ایسامعلوم ہوتاہےکہ شاہجہاں بادشاہ کےدربارمیں اس وقت خون ریزی ہورہی ہے۔تھوڑی دیر کےبعدنواب صداقت خاں کےقتل کی خبرسارےشہرمیں پھیل گئی۔۱۲؎
حضرت ملاعمرکوسماع میں کیفیت ہوئی،انہوں نےاسی حالت میں اپنی جان شیریں جان آفریں کے سپردفرمائی۔جب ان کوآپ(حضرت سیدنا)کی خدمت میں لایاگیا،توآپ نےان پرایک نگاہ ڈالی، ملا عمراٹھ کربیٹھ گئےاورپھرحالت وجدمیں رقص کرنےلگے۔
ایک بدمست ہاتھی لوگوں کوپریشان کرتاتھا۔اس کےخوف سےلوگ چھپ جاتےتھے۔ایک دن آپ جامع مسجدسےخانقاہ جارہےتھے۔آپ نےشورسنا،پوچھاکہ یہ شورکیساہے؟مریدوں نے عرض کیاکہ ایک بدمست ہاتھی آرہاہے،اس سے بچنےکی تدبیرضروری ہے۔کسی گلی میں جانامناسب ہے،آپ نےیہ سن کرفرمایا۔
"باباابوالعلاءاپنی راہ جاتاہے،وہ اپنی راہ جائے"۔
جب وہ مست ہاتھی سامنےآیا،آپ نےاس کی طرف بغوردیکھا،ہاتھی ایک دم رک کرکھڑاہوگیا، آپ اس بدمست ہاتھی کےبرابرسےنکلےاورچلےگئے۔
کچھ دن کےبعدآپ کواطلاع ہوئی کہ وہ بدمست ہاتھی خانقاہ کےدروازےپرکھڑاہے۔آپ اس کےپاس تشریف لےگئےاوراس سے فرمایاکہ مخلوق کوپریشان کرنااچھانہیں،بہتریہ ہے کہ راج گھاٹ جاکرلوگوں کودریاپارکراؤ،وہ ہاتھی راج گھاٹ گیااورلوگوں کو اپنی پیٹھ پربٹھاکردریاپار اتارنے لگا،کچھ ہی دنوں میں وہ ہاتھی میرصاحب کاہاتھی کہلایا۔
ایک دن کا واقعہ ہےکہ آپ کی ملاقت ایک جوگی سےجمناپرہوئی۔اس جوگی نے ایک ڈبیہ آپ کو پیش کی۔آپ نےجوگی سےدریافت کیاکہ ڈبیہ میں کیاہے۔جوگی نےجواب دیاکہ اکسیرہےاور اکسیرکی صفت یہ ہے کہ ایک رتی بھرتانبے پرملنےسےتانباسوناہوجاتاہے۔آپ نے وہ ڈبیہ جمنامیں پھینک دی اورجوگی سے فرمایا۔
سادھوجی انسان توخوداکسیرہے،ایسی صورت میں دوسری اکسیرکی تدبیرکرناانسان کی تحقیرہے"۔
جوگی کو رنج ہوا،آپ سےکہنےلگاکہ"افسوس میری ساری عمرکی کمائی آپ نے جمنامیں لٹائی"۔
آپ نےاس جوگی سے پوچھا۔"اچھایہ توبتاؤ،اکسیرکیسی ہوتی ہے"جوگی نےجواب دیا"خاک سی"۔
پھرآپ نےجوگی سےفرمایا۔
خاک کی یہ دہاک،یہ افسوس اورملال،ادھردیکھو،جمناکی یہ ریت سب خاک ہے،جتنی چاہے لووہ تو ایک چھوٹی سی ڈبیہ تھی،بڑےشوق سےڈبےبھرلواوربےتکلف اس سےسونابنالو"۔
سادھوکویقین نہ آیا،پھربھی اس نےتھوڑی سی ریت بطورآزمائش لےکرتانبےپرملی،تانبازرخالص ہوگیا،سادھو آپ کی یہ کرامت دیکھ کرآپ کامعتقدہوا۔
حواشی
۱؎اسرارابوالعلی ص۹
۲؎اسرارابوالعلی ص۳
۳؎اسرارابوالعلی ص۱۲،۱۱
۴؎اسرارابوالعلی ص ۱۳اذکارالاحرار
۵؎اسرارابوالعلی ص۱۴
۶؎اسرارابوالعلی ص۱۵
۷؎اسرارابوالعلی ص۱۷
۸؎اسرارابوالعلی ص۸۷
۹؎رسالہ فناوبقاء(اسرارابوالعلی)ص۳۰
۱۰؎رسالہ فناوبقاء
۱۱؎رسالہ فناوبقاء
۱۲؎اذکارالاحرار
۱۳؎اسرارابوالعلی ص ۷۰
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)