(سیدنا) تمام (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) تمام (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔ قرشی ہاشمی۔ نبی ﷺکے چچا کے بیٹے۔ عثما نے ان کے صحابیہونے میں اختلاف کیا ہے۔ ان کی والدہ ایک رومی کنیز تھیں ان کے حقیقی بھائی کثیر بن عباس ہیں۔ ہمیں عبدالوہاب بن ہبۃ اللہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میر ے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں اسمعیل بن عمر یعنی ابو المنذر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سفیان نے ابو علی صیقل سے انھوںنے جعفر ابن تمام سے انھوںنے اپنے والد سے انھوں نے نبی ﷺ سے نقل کر کے خبر دی کہ آپنے فرمایا کہ (ایک دن) صحابی نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تو آپنے فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تمہارے دانتوں کو زرد دیکھتا ہوں مسواک کیا کرو۔ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پ ڑجائے گی تو میں ان پر مسواک فرض کر دیتا جس طرح وضو ان پر فرض ہے۔ اس حدیث کو جریر سے منصور سے اسی کے مثل روایت کی اہے اور سریح بن یونس نے اس حدیث کو ابو حفص ابار سے انھوں نے منصور سے انھوں نے ابو علی سے انھوں نے جعفر بن تمام سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے عباس سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
تمام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب جب عراق کی طرف گئے تو سہل بن حنیف کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا پھر ان کو معزول کر کے اپنے پاس بلا لیا اور سہل کے بعد تمام بن عباس کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا پھر ان کو بھی معزول کر کے ابو ایوب انصاری کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا پھر ابو ایوب (خود ہی) حضرت علی کے پاس چلے اور مدینہ کا حاکم اپنی جگہ ایک انصاری کو کر گئے وہی انصاری مدینہ کے حاکم رہے یہاں تک کہ حضرت علی شہید ہوگئے۔ یہ مضمون ابو عمر نے خلیفہس ے نقل کیا ہے اور زبیر بن بکار کہتے تھے کہ حضرت عباس کے دس بیٹے تھے تمام ان سب میں چھوٹے تھے حضرت عباس ان کو گود میں اٹھاتے تھے اور فرماتے تھے۔
تموا بمتام فصار و اعشرۃ یا رب فاجعلہم کراما بررہ واجعل لہم ذکر او انم الثمرہ
(٭ترجمہ۔ تمام کے پیدا ہونے سے میرے بیٹِ پورے دس ہوگئے اے میرے پروردگار انھیں نیک اور برگزیرہ کر اور ان کا ذکر باقی رکھ اور ان کی نسلی کو ترقی دے)
ابو عمر نے لکھا ہے کہ حضرت عباس کے سب بیٹوں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے ہاں فضل اور عبداللہ نے حضرت سے حدیثیں بھی سنی ہیں اور آپ سے روایت کی ہے۔ ہر ایک کا ذکر انشاء اللہ تعالی اس کے مقام میں آئے گا ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے میں کہتا ہوں کہ ابو نعیم نے شروع تذکرہ میں تمام بن عباس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمام بن قثم بن عباس اور یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کیوں کہ تمام بن عباس مشہور ہیں رہ گئے تمام بن قثم بن عباس تو اگر مراد اس سے قثم بن عباس بن عبدالمطلب ہیں تو زبیر بن بکار نے کہا ہے کہ قثم بن عباس کے کوئی اولاد نہ تھی ہاں تمام بن عباس کا ایک بیٹا تھا اس کا نام بھی قثمہے شاید یہی شبہہ ان کو ہوگیا ہو مگر یہ بعید ہے کیوں کہ انھوںنے نبی ﷺ کا زمانہ نہیں پایا ان کے والد کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے چہ جائیکہ وہ خود۔ شاید ابو نعیم کو وہ حدیث ملی ہو جو مسند احمد بن حنبل میں ہے جو ہم سے معاویہ بن ہشام نے بیان کی وہ کہتے تھے ہمیں سفیان نے ابو علی صیقل سے انھوںنے تمام بن قثم یا قثمبن تمام سے انھوں نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میں نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگوںکا کیا حال ہے کہ تمہارے دانت زرد رہتے ہیں کیا تم مسواک نہیں کرتے اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑ جائے گی تو بے شک میں ان پر مسواک فرض کر دیتا غالبا ابو نعیم کی کتابم یں عن ابیہ کا لفظ رہ گیا ہوگا صرف تمام بن قثم یا قثم بن تمام ہوگا اور صحیح قثم بن تمام بن عباس ہے واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)