ابن جراشہ۔ ثقی ہیں۔ ابن ماکولا نے ذکر کیا ہے کہ یہ نبی ﷺ کے حضور میں وفد بن کے آئے تھے اور ان سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا میں نبی ﷺ کے حضور میں قبیلہ ثقیف کے وفد کے ساتھ آیا تھا ہم سب لوگ اسلام لائے اور ہم نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لئے ایک تحریر لکھ دیں جس میں چند باتوں کی اجازت ہو حضرت نے فرمایا تم خود لکھ لائو جو تمہاری سمجھ میں آئے پھر اس کو میرے پس لائو (حضرت علی مرتضی سے ہم نے کہا کہ آپ لکھ دیجئے چنانچہ وہ لکھنے بیٹھے) ہم نے اس تحریر میں اپنے لئے سود اور زنا کی اجازت مانگی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے لکھنے سے انکار کر دیا پس ہم خالد بن سعید بن عاص کے پاس گئے (ا ور ان سے لکھنے کے لئے کہا) علی نے ان سے کہا کہ تم جانتے ہو تم کو کیا لکھنا پڑے گا سعید نے کہا جو کچھ یہ لکھوائیں گے میں لکھ دوں گا اور رسول خدا ﷺ کے حکم دینے کے لئے سزاوار ہیں چنانچہ (انھوںنے لکھ دیا اور) ہم وہ تحریر رسول خدا ﷺ کے پاس لے گئے آپ نے پڑھنے والے سے فرمایاکہ اس کو پڑھو چنانچہ جب وہ سود کے بیان پر پہنچا تو آپنے فرمایا کہ اس تحریر کے اس مقام پر میرا ہاتھ رکھ دو پس آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر فرمایا یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و ذروا مابقی من الربوا الایہ (٭ترجمہ اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور جس قدر سود (تمہارا لوگوںکے ذمہ) باقی رہ گیا ہے اس کو چھڑ دو)بعد اس کے اس عبارت اس عبارتکو آپنے مٹا دیا ہمارے دل میں اطمیںان آگیا اور ہم نے پھر آپ سے نہیں کہا پھر جب زنا کے بیان پر پہنچا تو آپنے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر فرمایا ولا تقربو الزنا انہ کان فاجشہ الایہ (٭ترجمہ۔ زنا کے قریب نہ جائو کیوںک ہ وہ بے حیائی ہے) بعد اس کے آپ نے اسے مٹا دیا اور حکم دیا کہ اب یہ تحریر ہم لوگوںکو لکھ کر دے دی جائے ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)