سیّدنا عبیداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبیداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبدالمطلب بن ہاشم قریشی ہاشمی ہیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازادبھائی تھے ان کی والدہ لباب کبری ام الفضل بنت حارث تھیں۔ان کی کنیت ابومحمد تھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتھااورآپ کی حدیثیں بھی ان کویادتھیں۔یہ اپنے بھائی عبداللہ سے بہت چھوٹے تھے بعض لوگوں نے بیان کیاہےکہ عبداللہ اورعبیداللہ کی پیدائش میں ایک سال کافرق تھاہم کو ابویاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند کو عبداللہ بن احمد تک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھے مجھ سےمیرے والد نے بیان کیاوہ کہتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ(۱)اورعبیداللہ(۲) اورکثیر(۳) فرزندان عباس کو بلایاکرتے تھے اورفرماتے تھے کہ جومیرے پاس پہلے آئے گا اس کو فلاں فلاں چیزملے گی پس یہ فرزندان عباس آپ کے پاس دوڑدوڑکرجایاکرتے تھےاور آپ کی پشت وسینہ مبارک پرلدجایاکرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوپیارکرتے تھے اورلپٹالیتے تھےیہ عبیداللہ بڑے بزرگ اورسخی تھے ان کی سخاوت ضرب المثل تھی ان کو حضرت علی (مرتضی) نے یمن کا عامل بنایاتھا(اورحج کے زمانے میں)ان کوامیرموسم کرکے (کعبہ معظمہ)روانہ کیااوریزیدبن شجرہ رہاوی نے جب دیکھاکہ ہم دونوں ایک ہی کام کے واسطے آکریہاں جمع ہوگئے ہیں توآپس میں یہ صلاح کی کہ شیبہ بن عثمان لوگوں میں نمازپڑھائیں اور اس سے پیشریہ قثم بن عباس کے ساتھ رہتے تھے یہ یمن پربرابرحاکم رہےیہاں تک کہ حضرت علی شہیدہوگئے اس کے بعد جب بسرہ بن ارطات شیعان علی کوقتل کرنے کے لیے یمن گئے توانھوں نے ان کے دولڑکوں کوشہیدکر ڈالا ہم نے اس کو بسرکے نام میں ذکرکیاہےیہ عبیداللہ روزایک اونٹ کی قربانی کیاکرتے تھے ان کے بھائی نے انھیں منع کیاانھوں نے ان کاکہناکچھ نہ سنا اورروزانہ دواونٹ کی قربانی کرنی شروع کردی یہ عبیداللہ اوران کے بھائی عبداللہ جب مدینہ جاتےتوتمام اہل مدینہ (کہتے تھے کہ ہم سب)سے عبداللہ کاعلم زیادہ ہے اورعبیداللہ کی سخاوت زیادہ ہے۔ہمیں ابومحمد بن ابی القاسم نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ہمارے والد نے خبردی وہ کہتے تھےہمیں ابوالقاسم بن سمرقندی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں حمزہ بن علی بن محمداورمحمد بن محمد بن احمد نے خبردی دونوں کہتےتھےہم سے ابوالفرح قصاری نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ابومحمد یعنی جعفر بن محمد خواص نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابوالعباس یعنی احمد بن محمد نے بیان کیاوہ کہتے تھےمجھ سے محمدبن ولیدابوالحجاج فزاری نے بیان کیا کہ عبیداللہ بن عباس کوایک سفرپیش آیا اس سفر میں ان کا غلام بھی ان کے ساتھ تھا۔راستہ میں ایک منزل پر ان دونوں کودورسے ایک اعرابی کامکان نظرآیاعبیداللہ نے اپنے غلام سے کہاکاش چل کر اس گھرمیں قیام کرتے اوررات وہیں گذارتے(چنانچہ چلے)جب وہاں پہنچے تواعرابی نے ان کا دیکھ کر بڑی تعظیم کی کیوں کہ یہ بڑے خوبصورت اور نیک سیرت وجیہ آدمی تھےوہ اعرابی اپنی عورت سے کہنے لگا ہمارے یہاں ایک بزرگ شخص مہمان آیاہے پھران کو مکان میں اتارااورعورت سے آ کرپوچھاکہ ہمارے اس مہمان کے واسطے رات کے کھانے کاسامان ہے اس نے کہاکچھ بھی نہیں ہاں یہ ایک بکری ہے اس کوذبح کرکے لڑکی کوبھی قتل کرےگا۔اعرابی نے کہااگرچہ(کچھ بھی ہو راوی نے)کہاپھراس اعرابی نے بکری(کوذبح کرنے کے واسطے)چھری (ہاتھ میں)لی اور کہنے لگا ؎
۱؎ یاجارتی لاتوقظی البنیہ ان توقظیھا تنتخب علیہ وتنزع الشفرۃ من یدیہ
پھربکری کوذبح کرکے کھانے کا سامان درست کرکےعبیداللہ اور ان کے غلام کے پاس لایا اور ان کو کھاناکھلایاعبیداللہ اعرابی اوراس کی عورت کی گفتگو سن رہے تھے جب صبح ہوئی عبیداللہ نے اپنے غلام سے کہاکیاتیرے پاس کچھ (مال )ہے اس نے کہاہاں پانچ سودینار ہمارے خرچ سے فاضل ہیں عبیداللہ نے کہاوہ اعرابی کودےدےغلام نے کہاسبحان اللہ اس کو پانچ سودینار آپ عنایت کرتے ہیں باوجودیکہ جوبکری آپ کے واسطے اس نے ذبح کی تھی اس کی قیمت پانچ ہی درہم ہوگی عبیداللہ نے کہاتیرے حال پر افسوس ہے خداکی قسم وہ اعرابی ہم سے بھیی زیادہ سخی اور بخشش کرنے والا ہے کیوں کہ ہم تواپنی ملک میں سےبعض ہی حصہ اس کودیناچاہتے ہیں اوروہ سخاوت میں اس پرغالب ہوگیاکیوں کہ اس نے اپنااوراپنی لڑکی کاسرمایۂ زندگی ہم کودے دیاراوی نے کہا یہ خبر حضرت معاویہ کو پہنچی توانھوں نےکہاعبیداللہ کے تمام کام اللہ کے لیے ہوتے ہیں اور(دیکھوتوسہی) وہ ہیں کس کے بیٹے اور ہیں کس گھرانے کے عبیداللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور ان سےسلیمان بن یساراورمحمد بن سیرین اورعطاء بن ابی رباح نے روایت کی ہے ہم کوعبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتے تھےمجھ سے میرے والد نےبیان کیاوہ کہتےتھےہم سے ہشم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے سلیما ن بن بسارسے انھوں نے عبیداللہ بن عباس سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتے تھےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عمیصاء یارمیصاء (یہ راوی کاشک ہے)اپنے شوہرکاگلہ کرتی ہوئی آئیں اورکہنے لگیں کہ میراشوہر میری حاجت براری نہیں کرسکتا۔تھوڑی دیرکے بعد ان کے شوہربھی آگئے اورانھوں نے کہاکہ یہ عورت جھوٹی ہے اور یہ ارادہ کرتی ہے کہ پہلے شوہرکےپاس لوٹ جائے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ تجھکوجائزنہیں ہے جب تک تواپنی چاشنی اس مردکے علاوہ دوسرے شخص کونہ چکھادے (یعنی اس وقت تک توپہلے شوہرکے پاس نہیں جاسکتی)۸۷ھ میں عبیداللہ کی وفات ہوئی تھی اس کو ابوعبیدیعنی قاسم بن سلام نے بیان کیاہے اورخلیفہ نے بیان کیاہے کہ ان کی وفات ۵۸ھ میں ہوئی تھی اور بعض نے بیان کیاہے کہ یزیدبن معاویہ کے زمانے میں ان کی وفات ہوئی تھی اوریہی اکثرہے مدینہ میں ان کاانتقال ہواتھااوربعض لوگوں نےکہاہے کہ یمن میں وفات ہوئی تھی مگرپہلاقول زیادہ صحیح ہے۔ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎ترجمہ اے میری پڑوسن تولڑکی کونہ جگا٘اگرجگادےگی تووہ روروکرمجھے پریشان کرے گی ٘اور میرے ہاتھ سے چھری چھین لے گی۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)