سیّدناعبیداللہ ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہ
سیّدناعبیداللہ ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن نفیل قریشی عدوی ہیں ابوعیسیٰ ان کی کنیت تھی ان کانسب ان کے بھائی کے بیان میں گذرچکاہے یہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیداہوئےتھےقریش کے شہسواروں اوربہادروں میں سے تھے انھوں نے اپنے والداورحضرت عثمان بن عفان اورابوموسیٰ وغیرہم سے حدیث کی سماعت کی ہے زید بن اسلم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اپنے بیٹے عبیداللہ کودرے لگائے اورکہاتم نے اپنی کنیت ابوعیسیٰ رکھی ہے(تویہ بتاؤ)حضرت عیسیٰ کاکوئی باپ تھایہ عبیداللہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ کے ساتھ شریک تھے اوراسی جنگ میں ان کی شہادت ہوئی ان کاجنگ صفین میں (معاویہ کی طرف سے)شریک ہونے کاسبب یہ تھا کہ جب ابولؤلؤنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوشہید کرڈالااوران کے کفن دفن سے فراغت ہوئی تو کسی نے عبیداللہ سے کہاہم دیکھتے ہیں کہ ابولؤلؤ اورہرمزان دونوں بچ گئے حالاں کہ ہرمزان وہ خنجرجس سے حضرت عمرکوشہیدکیاتھااپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ رہاہے اوران دونوں کے ساتھ حفینہ نامی غلام بھی ہے حفینہ کواورنیزابن فیروزکوسعدبن ابی وقاص اہل مدینہ کو کتابت سکھانے کے واسطے لائے تھےاوریہ سب مشرک تھے لیکن ہرمزان مشرک نہ تھا۔عبیداللہ نے یہ سن کران لوگوں پرتلوار سے حملہ کیاہرمزان اور اس کے بیٹے اور حفینہ کومارڈالااگرچہ لوگوں نے ان کومنع کیامگریہ اپنے قصد سے بازنہ آئے اورکہاخداکی قسم ان کی کیاہستی ہےان لوگوں کوقتل کروں گاجن کے مقابل میں یہ کچھ بھی نہیں ہیں ان کاتشدددیکھ کرصہیب نے عمروبن عاص کوان کے پاس اس واسطے بھیجا کہ عبیداللہ کے ہاتھ سے تلوار چھین لیں یہ صہیب وہ شخص ہیں کہ حضرت عمرنے جن کواپنے جنازے کی نمازپڑھانے کی اورجب تک کوئی خلیفہ نہ مقررہواس وقت تک لوگوں کی امامت کی وصیت کی تھی۔جب عمروبن عاص نے ان سے تلوارچھین لی سعدبن ابی وقاص نے ان پر حملہ کیااورآپس میں جھگڑنے لگےاورکہاتم نے میرے پڑوسی کوقتل کرڈالا اور مجھ کوذلیل کیاپھرعبیداللہ کو صہیب نے قیدکرلیاجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے توعبیداللہ ان کے سپردکردیے گئےحضرت عثمان نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ کو اس شخص کے حق میں مشورہ دو جس نے اسلام میں ایسی حرکت کی جواب تک نہ ہوئی تھی مہاجرین نے مشورہ دیاکہ عبیداللہ قتل کیے جائیں اورایک گروہ نے کہاجس میں سے عمرو بن عاص بھی تھےکہ کل توحضرت عمرشہیدہوئے ہیں آج ان کے بیٹے شہیدکردیے جائیں اللہ ہرمزان اورجفینہ کوغارت کرےپس حضرت عثمان نے عبیداللہ کوچھوڑدیااورمقتول کی دیت دےدی بعض لوگوں نے کہاہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے دریافت کیا کہ ہرمزان کاولی کون ہے لوگوں نے جواب دیاکہ آپ ہی ہیں (آپ نے فرمایاجب میں ولی ہوں تومعاف کرتاہوں)میں نے عبیداللہ کومعاف کیابعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے عبیداللہ کوقمازیان بن ہرمزان کے حوالہ کردیا کہ اپنے والد کاقصاص لے لے قمازیان کہتے تھے (جب میں نے باجازت خلیفہ وقت عبیداللہ پرقابوپایاتو)لوگوں نے مجھے گھیرلیااورعبیداللہ سے قصاص لینے کی معافی میں مجھ سے گفتگو کرنے لگے میں نے لوگوں سے کہاکیامجھ کو ان کے قتل کرنے سے کوئی منع کرسکتاہے لوگوں نے جواب دیاکہ نہیں (منع کرسکتا)میں نے کہااگرمیں ان کوقتل کرناچاہوں توکیاقتل نہیں کرسکتا ہوں لوگوں نے کہاکہ قتل کرسکتے ہو(کیوں کہ قصاص لینے کی تم کواجازت ہے)قمازیان نے کہاکہ (جب یہ ہے تو)میں نے عبیداللہ سے قصاص لینے کومعاف کیابعض علمانے کہاہے کہ اگرحضرت عثمان اس طرح نہ کرتے توطعنہ کرنے والے یہ نہ کہتے کہ عثمان نے چھ برس عدل کیا بلکہ یہ کہتے کہ ان کی خلافت کی ابتداہی ظلم کے ساتھ ہوئی کیوں کہ انھوں نے خداکی حدوں میں سے ایک حد کومعطل کردیاتھااوراس روایت میں پھربھی کلام ہے کہ اگرقمازیان نے عبیداللہ سے قصاص لینا معاف کردیا ہوتا تو حضرت علی کو جائز نہ ہوتا کہ عبیداللہ کوقتل کریں مگرحضرت علی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے توانھوں نے عبیداللہ کے قتل کاارادہ کیاعبیداللہ وہاں سے بھاگ کرحضرت معاویہ کے پاس چلے گئےاورحضرت معاویہ کی طرف سے جنگ صفین میں شریک ہوئے یہ (وہاں)سواروں کے سردارتھے۔یہ جنگ صفین میں کسی روزشہیدکرڈالے گئے ربیعہ نے ان کوقتل کیاتھا۔زیاد ابن خصیفہ ربعی ربیعہ پر حاکم تھے پس عبیداللہ کی بی بی بحریہ جوہانی شیبانی کی بیٹی تھیں (زیادکے پاس) آئیں اوراپنے شوہر کی نعش مانگی زیادنے کہالے جاؤ انھوں نے عبیداللہ کی نعش کولے لیااوراس کو دفن کردیایہ عبیداللہ درازقد شخص تھے بیان کیاگیاہے کہ جب ان کی بی بی نے ان کی نعش کو خچرپر رکھاتواس کے جانب عرض میں ان کی نعش تھی ان کے ہاتھ پیر دونوں زمین سے ملے ہوئےتھے جب عبیداللہ شہیدہوگئے توحضرت معاویہ نے کی تلوارخریدلی اور وہ تلوار حضرت عمرکی تھی۔اور اس کو عبداللہ بن عمرکے پاس بھیج دیا۔بعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ ان کوایک ہمدانی شخص نے قتل کیاتھااوربعض نے کہاہے کہ عماربن یاسر نے اوربعض نے کہاہے فرزندان حنیفہ میں سے کسی نے قتل کیاتھاحنیفہ ربیعہ کے خاندان کاایک قبیلہ ہے۔جنگ صفین ماہ ربیع الاول۳۰ھ میں ہوئی تھی۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔