سیّدنا عمیر ابن وہب بن خلف رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمیر ابن وہب بن خلف رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن وہب بن حذافہ بن حمج قریشی حمجی۔کنیت ان کی ابوامیہ تھی قریش میں ان کی بہت قدروعزت تھی صفوان بن امیہ بن خلف کے چچازاد بھائی تھےبدر میں مشرکوں کے ساتھ شریک تھےاس وقت تک کافرتھے۔انھوں نےقریش سے انصارکی بابت کہاتھاکہ میں ان کے چہرے مثل زندگانی کے شاداب دیکھتاہوں یہ لوگ پیاسے نہیں ہوسکتےتاوقتیکہ اپنے ہی برابر ہمارےآدمیوں کو نہ مارڈالیں پس میری مصلحت یہ ہے کہ تم لو گ ایسےروشن چہروں کامقابلہ نہ کرو مگرلوگوں نے ان کی نصیحت نہ مانی پھرانھوں نے اورلوگوں کو یہی ترغیب دینی شروع کی اورسب سے پہلے انھوں نے اپنےآپ کو مسلمانوں کے درمیان میں ڈال دیااورلڑائی شروع ہوگئی۔یہ قریش کے جواں مردوں اورشریر لوگوں میں سے تھے۔بدر کے دن مسلمانوں کی تعداد دریافت کرنے کے لیے لشکر کے گرد یہی گھومتے تھے جب مشرکوں کوہزیمت ہوئی تو عمیر بھی ان لوگوں میں تھے جنھوں نے نجات پائی اس دن ان کے بیٹے وہب بن عمیرقیدہوگئے تھے جب ہزیمت یافتہ لوگ کہ واپس آئے توعمیراورصفوان بن امیہ بن خلف باہم بیٹھے صفوان نے کہاکہ اللہ نے ہماری زندگی مقتولین بدر کے بعد مکدرکردی عمیر نے کہا بے شک یہی بات ہےمجھ پر قرض ہے جس کے ادا کرنے کاکوئی سامان مجھے نظرنہیں آتااورکچھ بال بچے میرے متعلق ہیں جن کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے اگرایسانہ ہوتاتومیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس جاتااوران کو قتل کردیتابشرطیکہ میراان کاسامناہوجاتاان کے پاس جانے کے لیے میرے پاس ایک بہانہ ہے میں کہوں گاکہ میں اپنے قیدی بیٹے کے پاس آیاہوں یہ سن کرصفوان بہت خوش ہوااوراس نے کہاکہ تمھارے قرض کا اداکردینامیرے ذمہ ہے اوربال بچے تمہارے میرے بال بچوں سے پہلے کھاناکھایاکریں گے اور صفوان نے ان کےسامان سفرمہیاکردیااوران کوایک زہرآلود صیقل کی ہوئی تلوار دی پس عمیر مدینہ آئے اورمسجد کے دروازے پر فروکش ہوئے حضر ت عمربن خطاب نے ان کو دیکھاحضرت عمر اس وقت انصارکے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے واقعات بدرکاتذکرہ کررہے تھےاوراللہ تعالیٰ کی نعمتیں جو اس غزوہ میں نازل ہوئیں ان کا چرچاکررہے تھے جب حضرت عمر نے عمیرکودیکھا کہ ان کے پاس تلواربھی ہے توان کو اندیشہ ہوااورانھوں نے کہاکہ یہی دشمن خدا بدرکے دن تعداد معلوم کرنے کے لیے آیاتھااس کے بعد حضرت عمراٹھےاوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیاکہ عمیر بن وہب تلوارلیے ہوئے مسجد میں آیاہے یہ شخص بڑادغاباز فریبی ہے آپ اس کی کسی بات کااعتبا رنہ کیجیےگاحضرت نے فرمایااس کو میرےپاس لے آؤ یہ کہہ کرحضرت عمر باہر چلے گئےاوراپنے ساتھیوں سے کہہ گئےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤاورعمیر سے آپ کی حفاظت کرواس کےبعدحضرت عمراورعمیردونوں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضرہوئےحضرت عمربھی اپنے ہمراہ اپنی تلوار لے آئے تھے عمیرنے کہاانعمواصباحاً زمانہ جاہلیت میں سلام کے الفاظ یہی تھےحضرت نے فرمایااس سلام کی اب ہمیں حاجت نہیں رہی السلام علیکم اہل جنت کا سلام ہے۔اے عمیرتم یہاں کیوں آئے ہو انھوں نےکہامیں اپنے قید ی کے پاس رہاکرانے آیاہوں اس کوفدیہ لے کر چھوڑدیجیے کیونکہ آپ صاحب جودوکرم ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھریہ تلوار تم کیوں لائے ہوعمیرنے کہایہ کم بخت بدرکے دن ہمارے کس کام آئی جواب کام آئے گی میں اس کو بھولے سے لے آیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمیرسچ کہوکیوں آئے ہو عمیرنے کہامیں اپنے قیدی کے رہاکرانے کو آیاہوں حضرت نے فرمایا پھروہ شرطیں کیاتھیں جوتم نے حطیم کے پاس بیٹھ کر صفوان بن امیہ سے کی تھیں یہ سن کر عمیر ڈر گئےاورکہنے لگےکہ میں نے کچھ بھی شرط ان سے نہ کی تھی حضرت نے فرمایاتم نے اس سے میرے قتل کاوعدہ کیاتھااس شرط پر کہ وہ تمھارے بال بچوں کی کفالت کرے اورتمھاراقرض اداکردے حالانکہ خدامیرے اورتمھارے درمیان میں ہے عمیرنے کہامیں اس بات کی شہادت دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اورشہادت دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں یارسول اللہ ہم آپ کی وحی کی تکذیب کیاکرتے تھےمگریہ شرائط میرے اورصفوان کے درمیان میں حطیم کے اند ر ہوئی تھیں کسی کو خبرنہ تھی۔اللہ کا شکرہے جس نے مجھ کو یہاں بھیج دیااور میں اللہ پر اوراس کے رسول پر ایمان لایااس واقعہ سے مسلمانوں کوبہت مسرت ہوئی ۔حضرت عمرکہتےتھےکہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عمیرکوجب میں نےدیکھاتوخنزیرسے بھی زیادہ وہ میرے نزدیک قابل نفرت تھامگراب وہی عمیرمجھےاپنی بعض اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں بعد اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے عمیر بیٹھ جاؤ ہم تم سے کچھ باتیں کریں گےاوراپنے اصحاب سے فرمایا کہ اپنے بھائی کو قرآن سکھادواوران کے قیدی کو رہاکردو عمیر نے کہایارسول اللہ اب تک میں اپنے امکان بھرنورخداکے بھجادینے پر آمادہ تھاخداکا شکرہے جس نے مجھے ہلاکت سے بچایااب آپ مجھے اجازت دیجیے تومیں قریش کے پاس جاؤں اورانھیں اسلام کی طرف بلاؤں شاید اللہ انھیں ہدایت کرےاورہلاکت سے بچالےچنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دی اوریہ مکہ گئے (ان کے پہنچنے سے پہلے)صفوان بن امیہ نے لوگوں سے کہنا شروع کیاتھاکہ خوش ہوجاؤ ایک ایسی فتح کی خبر آنی چاہتی ہے کہ تم واقعہ بدرکوبھول جاؤگےاورجوشخص مدینہ سے آتاتھاصفوان اس سے پوچھتاتھا کہ بتاؤمدینہ میں کچھ حادثہ تونہیں ہوایہاں تک کہ ایک شخص آیااوراس نے بیان کیا کہ عمیر اسلام لے آئے پش مشرکوں نے ان پر لعنت کی اورکہاکہ وہ بیہ بن ہوگیاہے اورصفوان نے قسم کھالی کہ اب میں عمیرکوکوئی فائدہ نہ پہنچاؤں گااورنہ اس سے کبھی کلام کروں گااس کے بعد عمیر بھی وہاں پہنچ گئے اورانھوں نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلاناشروع کیابہت سے لوگ ان کے ہاتھ پراسلام لائے ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)