سیّدنا عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن وائل بن ہاشم بن سعید بن عمروبن ہصیص بن کعب لوی بن غالب۔قریشی سہمی کنیت ان کی ابوعبداللہ ہے اوربعض لوگ کہتےہیں ابومحمد ہے۔والد ہ ان کی نابغہ منیت حرملہ تھیں قبیلۂ بنی جلان بن عتیک بن اسلم بن یذکربن عرّہ سے قید ہوکرآئی تھیں۔عمروبن عاص کے اخیانی بھائی عمرو بن اثاثہ عددی اورعقبہ بن نافع بن عبدقیس فہری تھے ایک شخص نے خود عمروبن عاص سے ان کی والدہ کاحال پوچھاتوانھوں نے کہاکہ میری والدہ کا نام سلمی بنت حرملہ اورلقب نابغہ تھا۔قبیلۂ بنی عترہ سے تھیں عرب کی کسی لڑائی میں گرفتارہوئی تھیں اورعکاظہ میں بیچ ڈالی گئی تھیں ان کو فاکہ بن مغیرہ نے مول لیاتھاپھران سے عبداللہ بن جدعان نے ان کوخریدلیاتھابعدان کے عاص بن وائل کے پاس آئیں اوران سے وائل کی اولادہوئی۔کفارقریش نے انھیں عمربن عاص کو نجاشی کے پاس بھیجاتھاکہ جس قدرمسلمان ان کے ملک میں ہیں ان کوواپس کردیں مگرنجاشی نے اس کو منظورنہ کیا اورکہاکہ اے عمرو(محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمھارے)چچاکے بیٹے (ہیں ان)کاحال تم سے کیوں مخفی ہےاللہ کی قسم وہ خداکے سچے رسول ہیں انھوں نے کہا کہ آپ ایساکہتےہیں نجاشی نے کہاہاں خدا کی قسم تم میراکہامانوپس یہ وہاں سے ہجرت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف چلےاوربعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صفر۸ھ ہجری میں فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے اسلام لائے تھےانھوں نے نجاشی کے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کا ارادہ کیاتھامگرپھرکچھ توقف ہوگیابعداس کے یہ اورخالد بن ولید اورعثمان بن طلحہ عبدری ایک ساتھ آئے پھرخالد نے آگے بڑھ کا اسلام قبول کیااوربیعت کی بعداس کے عمروبن عاص آگے بڑھے اوراسلام لائےاوراس شرط پر بیعت کی کہ جس قدرگناہ پہلے ان سے ہوچکے ہیں وہ معاف ہوجائیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ اسلام اورہجرت اپنے ماقبل کے گناہوں کومعاف کرادیتاہے۔بعداس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے لشکرکاسرداربناکرغزوہ ذات السلاسل میں بھیج دیاتھاجہاں ان کے والد کے ماموں رہتےتھے۔ان کی والدہ قبیلۂ بلی بن عمروبن طاف بن قضاعہ سے تھیں یہ وہاں اس لیے گئےتھے کہ ان لوگوں اسلام کی ترغیب دیں اورجہادپرآمادہ کریں چنانچہ یہ اس لشکرکے ساتھ کے ساتھ جس میں تین سو آدمی تھے گئے جب یہ وہاں پہنچ گئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اورلشکرمانگاچنانچہ آپ نے اورلشکران کی مددکے لیے بھیجاہمیں ابوجعفر بن احمد بن علی نے اپنی سند کے ساتھ یونس ابن بکیرسے انھوں نے ابن اسحاق سے نقل کرکےخبردی وہ کہتےتھے مجھ سے محمد بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن حصین تمیمی نے غزوہ ذات السلاسل کے جوقبیلۂ بلی اورعذرہ کی سرزمین سے ہواتھا۔یہ حالات بیان کیے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن عاص کو بھیجا تھاتاکہ وہ اعراب کو اسلام کی طرف بلائیں ان کے والد عاص بن وائل کی والدہ قبیلۂ بلی کی ایک خاتون تھیں لہذاان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجاتھاکہ ان کی وجہ سے تالیف بھی ہوگی چنانچہ یہ روانہ ہوئے جب قبیلۂ جذام کی زمین میں ایک چشمہ پرپہنچےجس کو سلاسل کہتےہیں اوراسی وجہ سے اس غزوہ کا نام ذات السلاسل ہواتوانھیں کچھ خوف معلوم ہوااورانھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مددمانگی پس آپ نے ان کی مددکے لیے ابوعبیدہ بن جراح کو مع چندمہاجرین اولین کے جن میں ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے بھیجااورابوعبیدہ سے کہاکہ تم دونوں آدمی اختلاف نہ کرناپس ابوعبیدہ گئے جب وہاں پہنچے توعمروبن عاص نے کہاکہ تم میری مددکےلیے بھیجے گئے ہوابوعبیدہ نے کہانہیں بلکہ جوکام تمھارے متعلق ہے وہی میرے متعلق کیاگیا ہے ابوعبیدہ ایک بہت نرم دل اوردنیاکونفرت کی نظر سے دیکھنے والے آدمی تھے عمروبن عاص نے کہا کہ نہیں اے عبیدہ تم میری مددکےلیے بھیجے گئے ہوابوعبیدہ نے کہاکہ اے عمرورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاتھاکہ تم دونوں آدمی باہم اختلاف نہ کرنالہذااگرتم میراکہنانہ مانوگے تو میں تمھارا کہنا مانوں گاعمروبن عاص نے کہاتومیں تمھارے اوپر سردارہوں ابوعبیدہ نے کہابہترچنانچہ عمروبن عاص نے نماز پڑھائی۔ان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عمان کاعامل بنایاتھااوریہ وہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہے۔ہمیں ابراہیم اوراسماعیل وغیرہما نے اپنی سند کے ساتھ ابو عیسیٰ ترمذی سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے قتیبہ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے ابن لہیعہ نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے مشرح بن ہاعان نے عقبہ بن عامر سے نقل کرکے بیان کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علی وسلم فرماتے تھے کہ اورسب لوگ اسلام لائے اورعمروبن عاص ایمان لائے۔نیز وہ کہتےتھے ہم سے ابوعیسیٰ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسحاق بن منصورنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے ابواسامہ نے نافع بن عمرحمجی سے انھوں نےابن ملیکہ سے روایت کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے طلحہ بن عبیداللہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ عمروبن عاص قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں۔پھرحضرت ابوبکرصدیق نے ان کوشام کی طرف سردار بناکر بھیجااوریہ وہاں کی فتوحات میں شریک رہےاورحضرت عمربن خطاب کی طرف سے فلسطین کے حاکم بھی رہےبعداس کے حضرت عمرنے ان کوسردارلشکربناکرمصرکی طرف بھیجااورانھوں نے مصرکو فتح کیااورحضرت عمرکی وفات تک مصر کے حاکم رہے پھرحضرت عثمان نے بھی ان کو چارسال تک حکومت مصر پرقائم رکھابعداس کے معزول کردیااورعبداللہ بن سعید بن ابی سرح کو ان کی جگہ مقرر کیاپس عمروبن عاص نے فلسطین میں گوشہ نشینی اختیارکرلی کبھی کبھی مدینے آتے تھے اور حضرت عثمان معترض رہتے تھے جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو یہ حضرت معاویہ کے پاس چلے گئے اوران کے معین بن گئے اور ان کے ساتھ جنگ صفین میں شریک ہوئے اس جنگ میں ان کا حال بہت مشہورہے واقعہ تحکیم میں ایک حکم یہ بھی تھےپھرحضرت معاویہ نے ان کو مصربھیجا چنانچہ انھوں نے محمد بن ابی بکر سے جو حضرت علی کی طرف سے وہاں کے حاکم تھےمصرکونکال لیاحضرت معاویہ نے ان کومصرکوحاکم بنادیایہاں تک کہ ۴۳ھ ہجری میں اوربقول بعض ۴۷ھ ہجری میں اور بقول بعض ۵۲ھہجری میں وفات پائی پہلاہی قول صحیح ہے۔سیاہ رنگ کا خضاب لگایاکرتےتھےاور عرب کے بہادروں میں سے تھےمصر میں ان کی وفات شب عیدالفطرمیں ہوئی ان کے بیٹے عبداللہ نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی اوران کو مقام مفطم میں دفن کیابعداس کے عید کی نمازپڑھائی اوراپنے والد کے بعدمصرکے حاکم رہےپھرحضرت معاویہ نےان کو معزول کرکے اپنے بھائی عتبہ بن ابی سفیان کومصرکاحاکم بنایا۔حضرت عمروبن عاص کے اشعاربھی اچھے ہوتےتھےچنانچہ چند اشعارجو انھوں نے عماربن ولیدکے خطاب میں نجاشی کے یہاں کہےتھےوہ حسب ذیل ہیں ان کے اورعمارہ کے درمیان کچھ جھگڑاہوگیاتھاجس کوہم نے تاریخ کامل میں ذکرکیاہے۔
۱؎ اذالمراءلم یترک طعامایحبہ ولم ینہ قلباغاویاً حیث یمما
قضی وطرامنہ وغادرسبتہ اذاذکرت امثالھاتملاء الفما
۱؎ترجمہ۔جب کوئی شخص اپنی پسند کاکھانانہ چھوڑے اورگمراہ قلب کی خواہشوں کونہ روکے۔اور اپنی خواہش نفس کو پوراکرے اورایسی معشوقہ سے بےوفائی کرےکہ جس کے امثال کے ذکرسے منھ میں پانی بھرآتاہے۔
جب زمانہ ان کی وفات کاقریب آیاتوانھوں نے کہاکہ یااللہ تونے مجھے حکم دیامگرمیں نے نہ ماناتونے مجھے تنبیہ کی مگرمیں متنبہ نہ ہوابعداس کے اپنی گردن پرہاتھ رکھ کرانھوں نے کہاکہ یااللہ میں کمزورہوں میری مددکرمیں گنہگارہوں میراعذرقبول فرمامیں مغرور نہیں ہوں بلکہ استغفار کررہا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اسی کی تکرارکرتےکرتے وفات پائی۔یزید بن ابی حبیب نے روایت کی ہے کہ عبدالرحمن بن شمامہ نے ان سے بیان کیاکہ جب حضرت عمروبن عاص کی وفات ہونے لگی تووہ رورہے تھے ان سے ان کے بیٹے نے کہاکہ کیاموت سے ڈرکرآپ رورہے ہیں انھوں نے کہانہیں خداکی قسم بلکہ موت کے بعد جوحالات پیش آئیں گے ان سے ڈرکررورہاہوں ان کے بیٹے نے کہا کہ بحمداللہ آپ کی بہت اچھی حالت تھی اوررسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے حالات اورفتوح شام ومصرکے واقعات ذکرکرنے لگےحضرت عمروبن عاص نے کہاسب سے بڑی فضیلت میری تو تم نے ترک ہی کردی یعنی لاالہ الااللہ کی شہادت۔میری تین حالتیں ہوئیں پہلی حالت تویہ تھی کہ میں کافرتھااوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بہت سخت تھااگر میں اس حالت میں مرجاتاتویقیناًدوزخی ہوتا۔پھرمیں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور آپ سے بہت زیادہ حیاکرنے لگااگراس حالت میں مرجاتاتولوگ کہتےکہ خوشخبری ہو عمروکوکہ وہ اسلام لے آئے اوراچھی حالت میں مرےان کے لیے جنت کی امید ہے تیسری حالت میری یہ ہوئی کہ مجھےحکومت ملی اوردنیا میں مبتلاہوااب میں نہیں جانتاکہ یہ میرےلئے مضرہوایامفید۔میں جب مرجاؤں توکوئی عورت میرے لیے نہ روئے نہ کوئی رونے والی میرے ساتھ جائے نہ روشنی میرے ساتھ ہواورمیری ازارمضبوط باندھ دیناکیونکہ میں فریادی بنوں گا۔اورمیرے اوپرہرطرف سے مٹی ڈالدینااورمیری قبر میں لکڑی یا پتھرنہ رکھنااورجب مجھ کو قبر میں بند کرچکنا تو اتنی دیر میرے پاس بیٹھناجتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت بنایاجاتاہے میں تم سے موانست کروں گااورسوچوں گاکہ اپنے پروردگار کے فرشتوں سے کیاگفتگوکروں ان سے ان کے بیٹے عبداللہ نے اورابوعثمان نہدی اورقبیصہ بن ذویب وغیرہ نے روایت کی ہے ہمیں خطیب ابوالفضل بن احمد نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد سراج نے خبردی وہ کہتےتھےہمیں ابوالقاسم یعنی عبیداللہ بن عمربن احمد بن عثمان بن شاہین نے خبردی وہ کہتےتھے ہمیں ابومحمد یعنی عبداللہ بن ابراہیم بن ایوب بن ماسی بزاز نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے محمدبن عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے مصعب بن عبداللہ زبیری نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عبدالعزیزبن محمدنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے یزید بن ہاد نے محمد بن ابراہیم تمیمی سے انھوں نے بشربن سعید سے انھوں نے ابوقیس مولای عمروبن عاص سے انھوں نے عمروبن عاص سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ حاکم سے اگراجتہاد میں غلطی ہوجائے تب بھی اس کو ایک ثواب ملتا ہےابوالفضل کہتےتھے یہ حدیث میں نے ابوبکر بن محمدبن عمروبن حزم سے بیان کی تو انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ ابن عبدالرحمن نے ابوہریرہ سے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر کے ایسی ہی حدیث بیان کی۔حضرت عمروبن عاص کاقد پستہ تھا۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)