سیّدنا عمرو ابن اہتم رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمرو ابن اہتم رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
۔اہتم کانام سنان بن سمی بن سنان بن خالد بن منقربن عبیدبن مقاعس۔ نام ان کا حارث بن عمروبن کعب بن سعد بن زید مناہ بن تمیم تمیمی منقری ۔بعض لوگ کہتےہیں کہ یہ شخص اہتم کے بیٹےنہیں بلکہ خوداہتم ہیں نام اہتم کاسنان بن خالد بن سمی تھابعح لوگوں کابیان ہے کہ قیس بن عاصم نے سنان کو کمان ماری تھی جس سے ان کامنہ ٹوٹ گیاتھااس سبب سے لوگ ان کو اہتم کہتےتھے اور بعض لوگ کہتےہیں کہ منہ نہیں بلکہ ان کے دانت ٹوٹ گئے تھے قیس بن عاصم نے جو ان کامارا اس کا واقعہ یوں ہے کہ قیس قبیلۂ بنی سعد بن زید مناہ بن تمیم کے سردارتھےان کے اوراہتم کے درمیان میں عبدیغوث بن وقاص بن صلاءہ حارثی کی بابت جبکہ عصمہ تیمی ان کو قید کرکے لائےکچھ اختلاف ہواپس قیس نے اہتم کومارا۔ان کی والد ہ قذلی بن اعبدکی بیٹی تھیں۔کنیت ان کی ابوربعی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم بنی تمیم کے سرداروں کے ساتھ۹ھ ہجری میں وفد بن کرآئے تھےاس وفد میں زبرقان بن بدراورقیس اورعاصم وغیرہ بھی تھےیہ سب لوگ اسلام لائےزبرقان نے کچھ کلمات فخریہ کہے کہ یارسول اللہ میں قبیلۂ بنی تمیم کا سردارہوں اوران میں میرااثر ہے میں ان میں بہت ذی وجاہت ہوں اخذومنع کااختیارمجھے حاصل ہے اوریہ عمرو بن اہتم اس بات سے واقف ہیں عمرونے کہایارسول اللہ یہ شخص بڑاجھگڑالوہے اپنی بات کی پچ بہت کرتاہے زبرقان نے کہا یارسول اللہ اللہ کی قسم یہ جھوٹاہے یہ حاسدانہ گفتگو کررہاہےعمرونے کہا(اے زبرقان)میں تیرے اوپر حسد کروں گاخداکی قسم تیرانانہال بڑالئیم ہے تو نودولت ہے تیرے لڑکے سب احمق ہیں تیرے خاندان کے لوگ تجھے براسمجھتے ہیں خداکی قسم میں نے پہلی بات بھی جھوٹ نہ کہی تھی اوردوسری بات بھی سچ کہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایابعض بیان سحر(کے مثل)ہوتاہےبعض لوگوں کابیان ہے کہ اس وفد میں ستریااسی آدمی تھےاقرع بن حابس بھی اسی وفد میں تھے انھیں لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر۱؎کے پیچھے سے آوازدی تھی ان کاقصہ بہت طویل ہے۔یہ لوگ مدینہ میں ایک مدت سے قرآن اوردین کاعلم حاصل کرتے رہے بعد اس کے اپنی قوم کے پاس گئے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نقد بھی دیااورکپڑے بھی دئیےبعض لوگوں کا قول ہے کہ عمرواس وقت بہت کم سن تھےجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس وفد کے لوگوں کوانعام دیاتو پوچھاکہ اب توکوئی شخص تم میں کا باقی نہیں رہ گیایہ عمراس وقت وہاں موجود تھے بلکہ فرودگاہ میں تھےقیس بن عاصم نے جو ان کے ہم قبیلہ تھےاوران سے کچھ رنج رکھتےتھے کہایارسول اللہ اب کوئی شخص باقی نہیں ہے سواایک نوعمرلڑکےکے تو میں اس کودینامناسب بھی نہیں جانتامگررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اسی قدردیاجس قدر اورلوگوں کودیاتھا۔عمروکو جب قیس کی یہ گفتگو معلوم ہوئی توانھوں نے ان کی ہجو میں یہ اشعار موذوں کیے۔
۲؎ طلللت مفترش العلیاء تشتمنی عندالنبی فلم تصدق ولم تصب
ان تبغضو نافان الروم اصلکم والروم لاتملک ابغضاء للعرب
فان سودوناعودوسودوکم موخر عنداصل العجب و الذنب
۱؎اشارہ ہےاس آیت کی طرف چونکہ یہ فعل خلاف ادب تھالہذا اس آیت میں اس کی ممانعت ہے۱۲۔
۲؎ترجمہ۔(اے قیس)توہمیشہ بخل کے ساتھ مجھ کو نبی کے سامنے براکہتارہااورتوبڑا دروغ گوہے۔ اگرتم لوگ ہم سے بغض رکھتے ہوتوکیاپرواہ روم تمھاری اصل ہے اور روم والے اہل عرب کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ہمارے سردارکی مثال اس لکڑی کی سی ہے جو کجاوے میں سب سے آگے رہتی ہے۔ اورتمھارے سردار کی مثال اس لکڑی کی سی ہے جوکجاوے کے آخر میں رہتی ہے۔
یہ عمرو ان لوگوں میں تھے جنھوں نے سجاح (نامی عورت)کی جب اس نے دعوی نبوت کیا پیروی کی تھی پھربعداس کے یہ تائب ہوئے اوران کا اسلام بہت اچھاہوگیا۔بہت عمدہ خطبہ پڑھنے والے اور ادیب تھےبوجہ حسن وجمال کے لوگ ان کو مکحل کہاکرتےتھے شاعرتھے اورعمدہ شعرکہتےتھے ان کے اشعار کی لوگ یہ مثال دیتےتھے کہ گویاغلّہ پھیلادیے گئے اپنی قوم میں شریف تھے یہ کلام انہی کا ہے۔
۱؎ ذرینی فان البخل یا ام ہاشم لصالح اخلاق الرجال سروق
لعمرک ماضاقت بلادہما ولکن اخلاق الرجال تضیق
ان کی اولاد میں سے خالد بن صفوان بن عبداللہ بن عمروبن اہتم تھے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎ترجمہ۔اے ام ہاشم مجھے معاف رکھو کیونکہ بخل آدمی کی اچھی باتوں کو چھپاتاہے قسم میری جان کی کوئی شریک نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کی بری عادتیں تنگی پیداکردیتی ہیں۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)