سیّدنا عمرو ابن حمق بن کاہن رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمرو ابن حمق بن کاہن رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حبیب بن عمروبن قین بن رزاح بن عمروبن سعد بن کعب بن عمرو بن ربیعہ خزاعی ۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعدحدیبیہ کے ہجرت کی تھی۔اوربعض لوگوں نے کہاہے کہ حجتہ الوداع کے سال اسلام لائےتھےمگرپہلاہی قول صحیح ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہےتھے اورآپ سے احادیث حفظ کی تھیں ۔کوفہ میں رہتےتھےاورپھرمصرچلے گئے تھےیہ ابونعیم کا قول ہے۔اورابوعمرنے کہاہے کہ یہ شام میں رہتےتھے بعد اس کے کوفہ میں چلے گئے تھےاوروہیں رہتے تھے مگرصحیح یہ ہے کہ یہ مصر سے کوفہ گئے تھےان سے جبیربن نفیر اوررفاعہ بن شداد قتبانی وغیرہما نے روایت کی ہے ہمیں منصور بن مکارم بن احمد مودب نے اپنی سند ابوزکریا یعنی یزید بن ایاس تک پہنچاکرخبردی کہ وہ کہتےتھے ہم سے ابن حفص نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے علی بن حرب نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حکم بن موسیٰ نے یحییٰ بن حمزہ سے انھوں نے اسحاق بن ابی فروہ سے انھوں نے یوسف بن سلیمان سے انھوں نے اپنی دادی ناشرہ سے انھوں نے عمرو بن حمق سے روایت کرکے بیان کیاکہ انھوں نے (ایک مرتبہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپانی پلایاتاتو آپ نے یہ دعادی کہ یا اللہ ان کوان کے شباب سے برخوردار کرچنانچہ ان کی عمراسی برس کی تھی اور ان کی داڑھی میں ایک بال بھی سفید نہ تھا ۔یہ ان چار آدمیوں میں سے ایک شخص تھے جوحضرت عثمان کے گھرمیں کودے تھے اور بعدشہادت حضرت عثمان کے شیعہ علی میں شامل ہوگئےتھے اور حضرت علی ان کے ساتھ تمام غزوات جمل اورصفین اورنہروان میں شریک تھے انھوں نے حجر بن عدی کی اعانت کی تھی اور ان کے اصحاب میں سے تھےان کو زیاد کی طرف سے ایساخوف ہوا کہ وہ عراق سے موصل چلے گئےتھےاوروہاں ایک قریب کے غار میں مخفی ہوگئے تھےپس حضرت معاویہ نے اپنےعامل کو جو موصل میں تھالکھ بھیجا کہ عمروکومیرے پاس بھیج دو عامل نے ایک شخص کوبھیجا کہ غار سے ان کو پکڑلائےوہ آدمی جوگیاتواس نے دیکھاکہ وہ مردہ پڑے ہیں ان کو سانپ نے کاٹ لیاتھاموصل کے عامل اس وقت عبدالرحمن بن حکم تھےجو حضرت معاویہ کی بہن کے بیٹےتھے۔ ہمیں ابومنصوربن مکارم نے اپنی سند ابوزکریاتک پہنچاکرخبردی وہ کہتےتھےہمیں اسماعیل بن اسحاق نے خبر دی وہ کہتےتھے مجھ سے علی بن مدینی نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم سے سفیان نے بیان کیا وہ کہتےتھے ہم نے علی ذہبی سےسناوہ کہتےتھے کہ سب سے پہلاسرمسلمان کاجوکاٹ کے بھیجاگیاوہ عمرو حمق کاسرتھاجوحضرت معاویہ کے پاس بھیجاگیا۔سفیان کہتےتھے کہ حضرت معادیہ کا حکم صرف اسی قدرتھاکہ عمروبن حمق کوگرفتارکرلاؤ مگرجب لوگوں نے دیکھاکہ ان کوسانپ نے کاٹ لیاہے اوریہ خیال ہواکہ حضرت معاویہ کواس بات کا یقین نہ آئے گاتوان کاسرکاٹ کربھیج دیاابوزکریاکہتےتھے کہ مجھ سے عبداللہ بن مغیرہ قریشی نے حکم بن موسیٰ سے انھوں نے یحییٰ بن حمزہ سے انھوں نے اسحاق بن ابی فروہ سے انھوں نے یوسف بن سلیمان سے انھوں نے اپنی دادی سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتی تھیں عمروبن حمق کے نکاح میں آمنہ بنت شریدتھیں حضرت معاویہ نے ان کو دمشق کے قید خانے میں قید کردیاتھاجب عمروبن حمق کاسرآیاتوان کے پاس بھیجاگیااوران کی گود میں ڈال دیاگیایہ حال دیکھ کر ان کی حالت بہت خراب ہوگئی انھوں نے وہ سراپنی گود میں رکھااور ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اوران کے منہ پربوسہ دیااورکہاکہ تم لوگوں نےاس (ہمدم رفیق)کو مجھ سے بہت دنوں تک جدارکھاپھراب تم نے ان کاسرمیرے پاس تحفہ میں بھیجاکیاعمدہ تحفہ ہے جو کسی طرح واپس نہیں کیاجاسکتا۔اوربعض لوگوں کابیان ہے کہ (ان کاانتقال نہیں ہواتھابلکہ)یہ بیمارتھے نقل وحرکت کی ان میں طاقت نہ تھی۔رفاعہ بن شداد بھی ان کے ساتھ تھےانھوں نے رفاعہ سے کہدیاکہ تم چلے جاؤ ایسانہ ہو کہ تم بھی میرے ساتھ گرفتارکرلیے جاؤاس کے بعدعمروکا سرکاٹ کر حضرت معاویہ کے پاس شام بھیج دیاگیاان کا قتل ۵۰ھہجری میں ہواتھاہمیں عبدالوہاب بن ہبتہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے عبداللہ بن نمیرنے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے عیسیٰ قاری یعنی ابوعمرنےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےسدی نے رفاعہ بن شداد قتبانی سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے کہ میں مختاکے پاس گیاتواس نے ایک تکیہ میرے قریب ڈال دیااور(دوسرے تکیہ کی طرف اشارہ کرکے)کہا کہ اگرمیرے بھائی جبریل ۱؎اس تکیہ پر نہ بیٹھے ہوتےتومیں یہ تکیہ تمھارے پاس رکھدیتا(یہ کلمہ سن کر مجھے ایسا غصہ آیاکہ میں نے ارادہ کیا کہ اس کی گردن ماردوں پھرمیں نے اس سے ایک حدیث بیان کی مجھ سے عمروبن حمق نے بیان کی تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجومومن کسی مومن کواپنی جان کاامین بنائےاوروہ اس کوقتل کردےتومیں اس قاتل سے بری ہوں حضرت عمروبن حمق کی قبرموصل میں مشہورہے اس کی زیارت کی جاتی ہےاور ان کی قبر پرایک بڑا قبہ بھی بناہواہے جس کی تعمیر ابوعبداللہ سعیدبن حمدان جوسیف الدولہ اورناصرالدولہ کے چچاکابیٹاتھا شعبان ۳۳۶ھ میں شروع کی تھی اوراس قبہ کی تعمیرکے باعث سے سنی شیعہ میں ایک فتنہ بھی برپاہواتھا۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
۱؎یہ بدنصیب آخرمیں دعوائے نبوت بھی کرنے لگاتھا کہ جبریل میرے پاس وحی لے کرآتے ہیں۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)