بن عاص بن امیہ بن عبدشمس قریشی اموی ان کی والد ہ صفیہ بنت مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم تھیں حضرت خالد بن ولید ان کے چچاتھےانھوں نے اوران کے بھائی خالد بن سعید نے دو ہجرتیں کی تھیں ایک حبش کی طرف دوسری مدینہ کی طرف اوریہ دونوں بھائی ایک ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں حاضرہوئےتھےمگرعمروخالد کے کچھ دنوں بعد اسلام لائے تھے۔واقدی نے جعفربن محمد بن خالد سے انھون نے ابراہیم بن عقبہ سے انھوں نے ام خالد بنت خالد بن سعید ابن عاص سے روایت کی ہے کہ وہ کہتی تھیں میرے چچا عمروبن سعیدمیرے والد کے جانے کے کچھ دنوں بعدحبش گئےتھےپھروہیں رہے یہاں تک کہ اوراصحاب نبی کے ہمراہ دو کشتیوں میں سوارہوکروہاں سے آئے جس وقت مدینہ پہنچے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے یہ ۷ھ ہجری کاواقعہ ہے پس عمرونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےہمراہ فتح مکہ اورحنین اور لطائف اور تبوک میں شریک ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خیبرکے میوہ جات کی تحصیل پرمقررکیاتھا۔جب یہ اوران کے بھائی خالد اسلام لائے توان کے تیسرے بھائی اہان نے یہ اشعار کہے ان کے والد سعید مقام ظریبہ میں انتقال کرگئےتھے وہ اشعاریہ ہیں۔
۱؎ الالیت میتابالظریبتہ شاہدا لمایفتری فی الدین عمروخالد
اطاعابناامرالنساء فاصبحا یعنیان من اعدائنا من کابدیھا؟
۱؎ترجمہ۔کاش مقام ظریبہ کامردہ اس وقت دیکھتاکہ عمرواورخالد دین میں کیسا افتراکررہے ہیں ہمیں عورتوں کی راہ پر چلاناچاہتے ہیں اورہمارے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہے اوران لشکروں کے ساتھ جنھیں ابوبکرصدیق نے شام کی طرف بھیجاتھاگئےتھےاورواقعہ اجنادین میں بعہد خلافت ابوبکرصدیق شہید ہوئے یہی اکثر اہل سیر کاقول ہے اورابن اسحاق نے کہاہے کہ عمرویرموک میں شہید ہوئےتھے مگراورکسی نے ابن اسحاق کے قول سے اتفاق نہیں کیابعض لوگوں کابیان ہے کہ مرج الصفر میں شہید ہو ئے تھے مرج الصفر اوراجنادین دونوں جمادی الاولی ۱۳ھ ہجری میں ہوئے تھے انھوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)