بن نخیع۔اوربعض لوگ سلمہ بن قیس اوربعض سلمہ بن لائے بن قدامہ جرمی کہتےہیں۔ کنیت ان کی ابوبریدتھی انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی قوم کی امامت کیاکرتا تھاحالانکہ اس وقت میری عمرچھ یاسات برس کی تھی۔اور حجاج بن منہال نے حماد بن سلمہ سے انھوں نے ایوب سے انھوں نے عمروبن سلمہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے میں ان لوگوں میں تھاجووفد بن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تھےآپ نے فرمایاکہ جو شخص تم سب میں زیادہ قاری قرآن ہو وہی امامت کرےتو میں ہی سب سے زیادہ قاری قرآن تھا۔حماد بن سلمہ نے ایسا ہی بیان کیاہے۔ہمیں ابواحمد یعنی عبدالوہاب بن علی نے اپنی سند ابوداؤد یعنی سلیمان بن اشعث تک پہنچاکر خبردی وہ کہتےتھےہم سے قیضبہ نے بیان کیاوہ کہتےتھےہم سے وکیع نے مسعربن حبیب جرمی روایت کرکے بیان کیاوہ کہتے تھےمجھ سے عمروبن سلمہ نے اپنے والد سے روایت کرکے بیان کیاکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد میں گئے تھےجب ان لوگوں نے اپنے وطن واپس آنے کاارادہ کیاتوعرض کیاکہ یارسول اللہ ہم لوگوں کی امامت کون کرے آپ نے فرمایاجب سب سے زیادہ قرآن کا حافظ ہو چنانچہ تمام قوم میں مجھ سے زیادہ قرآن کسی کو یاد نہ تھالہذاسب لوگوں نے مجھی کو امام بنایاحالانکہ میں کم سن بچہ تھاپس میں قبیلۂ جرم کے جس مجمع میں ہوتاتھامیں ہی نمازکاامام بنایاجاتاتھااورمیں ہی جنازہ کی نمازاب تک پڑھاتاہوں۔سلیمان کہتےہیں کہ اس حدیث کویزید بن ہارون نے مسعربن حبیب انھوں نے عمروبن سلمہ سے روایت کیاہے کہ وہ کہتےتھےمیری قوم کے لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئےتھےاورانھوں نے اپنے والد کاواسطہ اس روایت میں نہیں ظاہر نہیں کیا ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)