سیّدنا عمرو ابن شاس بن عبید رضی اللہ عنہ
سیّدنا عمرو ابن شاس بن عبید رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن ثعلبہ بن رویبہ بن مالک بن حارث بن سعد بن ثعلبہ بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسدی اوربعض لوگ ان کو تمیمی کہتےہیں قبیلہ ٔبنی لمجاشع بن دارم سے یہ بنی تمیم کے وفدکے ساتھ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئےتھےمگرپہلاہی قول صحیح ہےیہ ابوعمرکابیان ہے۔اورابن مندہ اورابونعیم نے بیان کیاہے کہ عمروبن شاس اسلمی ہیں اوراس کے سوا ان کے نسب میں کوئی اختلاف نہیں بیان کیاگیا۔صحابی ہیں۔حدیبیہ میں شریک تھے بڑے رعب اور دلیری کے آدمی تھے۔شعربھی بہت عمدہ کہتےتھے۔ان کا شماراہل حجاز میں ہے انھوں نے اپنے بیٹے عراراوراپنی بی بی ام حسان کے بارے میں کچھ اشعارکہےتھےام حسان عرارسے ناخوش رہاکرتی تھیں اوران کو ستایاکرتی تھیں عمروام احسان کو اس سے منع کیاکرتے تھے مگروہ نہ مانتی تھیں۔وہ اشعار حسب ذیل ہیں۔
۱؎ ارادت عرارابالہوان ومن یرد عرارالعمری بلھوان لقد ظلم
فان کنت منی اوتریدین صحبتی فکونی لہ کالشمس ربت بہ الادم
والافسیری سیرراکب ناقتہ تیمم غیثا لیس فی سیرہ امم
وان عراراان یکن غیر واضح فانی احب الجون ذاالمنکب العمم
۱؎ ترجمہ۔اس نے عرارکوذلیل کرنے کا ارادہ کیاحالانکہ قسم اپنی جان کی جوعرارکوذلیل کرنے چاہے وہ ظالم ہے۔اے ام حسان اگرتومیری ہے اورمیرے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو مثل آفتاب کے ہوجا جس کی روشنی سے جمپڑی بیتے ہیں۔ورنہ میں تجھ سے مثل سوارناقہ کے علیحدہ ہوکرچل دونگاجس کی رفتار میں سستی نہ ہو۱۲۔
عرار کا رنگ سیاہ تھا۔عمرویہ چاہتےتھے کہ اپنے بیٹے اوراپنی بی بی کے درمیان صلح کرادیں مگریہ نہ ہوا لہذا انھوں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی بعداس کے نادم ہوئےاور یہ اشعارکہے۔
۱؎تذکر ذکری ام حسان فاقشعر علی وبرملا تبین ماائتمر
تذکرتھاوہنا وقد حال دونھا لعان وقیعان بہاالماء والشجر
فکنت کذات البرملاتذکرت لہاربعا لمعہد ہ سجر
۱؎ترجمہ۔جب ام حسان کویاد کرتاہوں تومیرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔افسوس مجھے بعد کام کرچکنے کے اصل حال معلوم ہوا۔اب میں اس کو یادکرتاہوں حالانکہ اب میرے اوراس کے درمیان میں بہت حجابات ہیں۔اب میں مثل اوسی نیک عورت کے ہوں جواپناباغ یاد کرکے صبح کو روتی تھی۔
یہ حجاج وہی ہیں جن کو حجاج نے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کا سردے کر عبدالملک بن مروان کے پاس بھیجاتھاعبدالملک نے ان سے کچھ باتیں پوچھیں تو ان کوحجاج کے خط سے بھی زیادہ خوش بیان پایا تواس نے یہ شعرپڑھا۔
۱؎فان عراراان یکن غیر واضح فانی احب الجون ذاالمنکب العمم
۱؎ترجمہ۔عراراگر خوبصورت نہیں ہے تو نہ سہی میں ایسے سیاہ فام کو دوست رکھتاہوں کہ شانے چوڑے ہوں۱۲۔
عرارنے کہایاامیرالمومنین آپ جانتے ہیں کہ یہ شعرکس کاہے واللہ میراہی نام عرار ہے اور یہ شعر میرے والدکاہے اوراپناقصہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بیان کیاعمروبن شاس ہی نے اشعارذیل موزوں کیے ہیں۔
۱؎اذا نحن اولجنا وانت امامنا کفی المطایانابوجھک ہادیا
الیس ترید العیس خفتہ اذرع وان کن حسری ان تکون امامیا
۱؎ترجمہ۔جب ہم سفر میں ہوں اورتم ہمارے پیش روہو توتمھارارخ روشن ہماری رہبری کے لیے کافی ہے۔ہرمسافر طے مسافت کو چاہتاہے مگرمیری خواہش ہوتی ہے کہ تم میرے پیشرو رہو۱۲۔
یہ شعرنہایت عمدہ ہیں جن کو وہ فخر اخندف میں قیس کے سامنے پڑھتے تھے۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ہمیں ابویاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھےمجھ سے میرے والدنے محمدبن اسحاق سے انھوں نے ابان بن صالح سے انھوں نے فضل بن معقل بن سنان سے انھوں نے عبداللہ بن نیاراسلمی سے انھوں نے عمرو بن شاس اسلمی سے جو اصحاب حدیبیہ میں سے تھےروایت کرکے بیان کیاکہ وہ کہتےتھے میں حضرت علی کے ساتھ یمن گیاتھاانھوں نے اس سفر میں مجھ پر کچھ ظلم کیاجس پرمجھے بہت رنج ہواچنانچہ جب میں لوٹاتو میں نے مسجد نبوی میں ان کی شکایت بیان کی اس کی خبرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی ایک دن میں صحابہ کے ہمراہ مسجد میں تھاحضرت نے جومجھے دیکھا توفرمایاکہ اے عمرومیری طرف دیکھو اے عمرواللہ تم نے مجھے اذیت دی میں نے کہامیں آپ کواذیت دینے سے خداکی پناہ مانگتاہوں حضرت نے فرمایاہاں جس نے علی کواذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)