۔عنبری۔قبیلۂ عبدالقیس سے ہیں اوربعض لوگوں کابیان ہے کہ بکربن وائل سے اور بعض لوگ کہتےہیں کہ عمربن قاسط بن مہنب بن اقصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزارسے ان کے نسب میں جوکچھ بیان کیاگیاہے سب کامنتہی اسد بن ربیعہ پر ہوتاہے پس یہ بہرحال ربعی ہیں بصرہ میں رہتےتھے ان سے حسن بصری نے روای کی ہے ہمیں خطیب ابوالفضل بن ابی نصر نے اپنی سند کے ساتھ ابوداؤد طیالسی تک خبردی وہ کہتےتھےہمیں مبارک بن فضالہ نے حسن بن عمروبن تغلب سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے کہ مجھ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز)ایک ایسی بات فرمائی جومجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند آئی ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نےبعض لوگوں کودیااوربعض لوگوں کونہ دیااورفرمایاکہ ہم بعض لوگوں کو محض اس خیال سے دےدیتےہیں کہ ان کونہ دیاجائے گاتووہ رنجیدہ ہوں گے۔اور صبر نہ کرسکیں گےاوربعض لوگوں کو محض اس بھروسہ پر نہیں دیتے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان قائم کردیاہے منجملہ ایسے لوگوں کے عمروبن تغلب ہیں اورآپ نے فرمایاکہ علامات قیامت سے یہ ہے کہ تجارکی کثرت ہوجائے گی اورقلم ظاہرہوگامطلب یہ ہے کہ مال بہت بڑھ جائےگا جس کے باعث تاجروں کی کثرت ہوجائےگی اورلکھنے والے زیادہ ہوجائیں گے کتابت کارواج اس وقت عرب میں بہت کم تھا۔قتادہ نے بیان کیاہے کہ قبیلۂ بکربن وائل سے چار آدمیوں نے ہجرت کی تھی دوآدمی بنی سدوس سے تھے(اسود بن عبداللہ اوربشیر بن حصاصیہ اورعمروبن تغلب اور فرات بن حیان ۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔ابن قداح نے بیان کیاہے کہ یہ عمرواحد ہیں اور اس کے بعدکے تمام مشاہد میں شریک تھے۔عدوی نے کہاہے کہ میں نہیں جانتاعمروبن تغلب سے کوئی کوئی واقف ہو۔ابن دباغ نے ان کا تذکرہ ابوعمرپراستدراک کرنے لے لیے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)