ابن ضیادہ۔ قبیلہ بنی خصیب سے ہیں۔ رسول خدا ﷺ کے حضور میں رفاعہ بن زید جذامی کے ہمراہ قبیلہ جذام کے وفد میں آئے تھے۔ یہ ابن سحق کا قول ہے۔ ان کا تذکرہ ابن دباغ اندسلی نے کیا ہے۔
امیہ
ابن سعد قرشی۔ ان کا تذکرہ حافظ ابو موسی نے ابن مندہ پر استدراک کرنے کی غرض سے لکھاہے اور انھوںنے کہا ہے کہ ابو زکریا یعنی ابن مندہ نے اپنے دادا پر استدراک کرنیکے لئے لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان ستر آدمیوں میں سے ہیں جنھوں نے رسول خدا ﷺ سے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ یہ سلیمان بن کثیرکے دادا یں۔ ان کا تذکرہ محمد ابن احمدویہ نے تاریخ مرو میں ان صحابہ کے ذیل میں یا ہے جو مرومیں آکے فروکش ہوئے تھے ابو موسی نے کہا ہے ہک ہمیں ابو زکریا نے اپنی کتاب میں خبر دیوہ کہتے تھے مجھ سے میرے چچا امام نے بیان کیا وہ کہتے تھے میں ابو علی محمد بن احمد بن حسین نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو عصمتہ محمد بن احمد بن عباد بن عصمہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو رجاء محمد بن حمدویہ سنجی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے عبداللہ حجاجی نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں خلف بن عامر نے فضل بن سہل سے انوں نے نصر ابن عطاء واسطی سے انھوں نے ہمام سے انھوں نے قتادہ سے انھوں نے عطا سے انھوںنے امیہ قرشی سے رویت کی کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا جب میرے قاصد تمہارے پس پہنچیں تو انھیں اس قدر زرہیں یا اونٹ دے دینا میں نے عرض کیا کہ بطور رعایت کے حضرت نے فرمایا کہ ہاں۔ ابو موسی نے کہا ہے کہ ان کا تذکرہ اسی طور پر کیا گیا ہے ور ایسی ہی رویت کی گئی ہے ہم سے یہ حدیث ابو منصور محمود بن اسمعیل صیرفی نے سن۵۱۰ھ میں بیان کی تھی وہ کہتیت ھے ہم سے ابوبکر محمد عبداللہ بن شاذان ادیب نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمس ے ابوبکر عبداللہ محمد قباب نے بیان کیا وہ کہتے تھے م سے ابوبکر احمد بن عمرو بن ابی عاصم نے بیان کا وہ کہتے تھے ہمس ے فضل بن سہیلنے سند سابق کے ساتھ عطاء سے روایت کر کے بیان کیا اور عطاء یعلی بن صفوان بن امیہ سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے تھے کہ رسول خدا ﷺ نے ایسا ہی فرمایا۔ ابو موسینے کہا ہے کہ اس حدیث کو حسان بن بلال نے ہمام سے اسی طرح رویت کیا ہے یہ حدیث صفوان بن امیہ سے مہفوظ ہے اور بواسطیہ امیہ بن صفوان کے ان کے والد سے بھی مروی ہے یہاںتک ابو موسی کا کلام تھا۔
میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث صفوان بن امیہ بن خلف حجی سے منقول ہے۔ اور ابو زکریا کا لکھنا اور ان کا امیہ بن سعد کہنا تو ابو موسی شاید اس سے واقف نہیں ہوئے اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ غیر معروف نسب انھوںنے کہاں سے سے بیان یا۔ اس قسم کی باتوں کا تو نہ لکھنا ہی بہتر ہے مگر ہمیں صرف اس خیال سے لکھنا پڑا کہ نوقاف لوگ دیکھیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اس تذکرہ کو چھوڑ دیا یا یہ کہ اس تذکرہ کا علمہمیں نہیں
ہوا۔ باقی رہا ابو زکریا کا یہ کہنا کہ یہ ان ستر لوگوں میں تھے جنھوںنے درخت کے نیچے بیعت کی تھی (یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ) درخت کے نیچے بیعت تو بیعۃ الرضوان ہوئی تھی اور اس بیعت میں ستر آدمی نہ تھے وہ تو ہزار سے بھی زیادہ تھے ہاں اس زیادتی میں اختلاف ہے۔ اور وہ ستر لوگ جھنوں نے بیعت کی تھی وہ بیعت العقبہ تھی اس بیعت میں انصار اور ان کے خلفا کے سوا کوئی نہ تھا۔ اس بیعت میں کوئی قریشی شریک نہ تھا سوا عباس عم نبی ﷺک ے سو وہ اس وقت کافر تھے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)